مسجد اقصیٰ کی تعمیر اور اس کا تاریخی پس منظر

اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے جس کی طرف سفر کرنا بھی باعث اجر و ثواب ہے مسجد اقصیٰ اپنے آپ میں ایک مکمل تعمیری تاریخ رکھتا ہے جس کا تعلق قوموں کے عروج و زوال اور پیغمبروں کے مبعوث ہونے سے ہے مسجد اقصیٰ ہم مسلمانوں کے لیے قبلہ اول کی حیثیت رکھتا ہے جس کی طرف رخ کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے تقریبا ڈیڑھ سال تک نماز ادا کی اور لوگوں کو پیغام دیا کہ اسلام کوئی نیا دین نہیں بلکہ دین ابراہیمی ہی کی ایک شکل ہے جو حضرت موسی اور عیسی علیہم السلام کی تعلیمات کو پھر سے زندہ کرنے اور اصل تورات و انجیل کے پیغام پر عمل پیرا ہے حضرت ابوذر غفاری سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اے اللہ کے رسول اس روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی آپ نے فرمایا مسجد حرام انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون سی مسجد تعمیر کی گئی آپ نے فرمایا مسجد اقصی حضرت ابو غفاری نے کہا ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا وقفہ ہے؟ آپ نے جواب دیا چالیس سال علماء اور مفسرین کی ایک جماعت کے نزدیک مسجد اقصی کو سب سے پہلے خود حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ اور بعد میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا۔ روایتوں کے مطابق اللہ نے حضرت جبریل کو خصوصی طور سے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف بھیجا۔ اور حکم دیا کہ مسجد حرام اور مسجد اقصی کی تعمیر کریں۔ ابن حشام نے اپنی تاریخ میں لکھا کہ جب بنی اسرائیل فلسطین میں مضبوط ہوئے اور ان کی ریاست قائم ہوئی تو حضرت داؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کی دوبارہ بنیاد رکھی اور پھر آپ کے جانشین اور فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصی کی مکمل تعمیر فرمائی غرض یہ کہ احادیث اور تاریخی روایتوں سے یہ پتا چلتا ہے کہ بیت المقدس کو کئی مرحلوں اور ادوار میں بار بار تعمیر کیا گیا حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ کے جلیل القدر پیغمبر تھے جن کی سلطنت مشرق سے مغرب تک تھی اور انسانوں کے ساتھ چرند و پرندے جانور حیوانات اور جنات پر بھی آپ نے حکومت کی تھی جنات آپ کے تابع اور فرمانبردار تھے جو حکومتی امور میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم کی تعمیل کیا کرتے اور بڑے بڑے کام سرانجام دیتے لہذا مسجد اقصی کی تعمیر میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کو بھی لگایا تھا اس مسجد کی تعمیر آپ علیہ السلام کے بادشاہ بننے کے بعد سے ہی شروع ہو گئی اور تقریبا چالیس سالوں میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تعمیری مقام پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے شیشے کا ایک حجرہ بنایا تھا جس کے اندر آپ علیہ السلام عبادت کیا کرتے تھے آپ علیہ السلام اپنے عصا کے سہارے کھڑے رہتے اور اللہ کی عبادت میں مشغول رہا کرتے یہ عبادت طویل ہوتی تھی آپ علیہ سلام کئی کئی دن ایسے ہی کھڑے رہتے اور جنات اپنے کاموں میں مشغول رہا کرتے جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو یہ علم ہوا کہ جلد ہی آپ کی وفات ہونے والی ہے تو آپ نے اللہ سے دعا کی کہ ایسا معجزہ ظاہر ہو جائے کہ ان جنوں کو آپ کی وفات کا علم ہی نہ ہو اور وہ اسی طرح اپنے کاموں میں مصروف رہ کر مسجد کی تعمیر مکمل کر دیں لہذا اسی حجرے کے اندر جب آپ عبادت میں مصروف تھے تو آپ کی روح قبض کر لی گئی لیکن اس عصا کے سہارے آپ کا جسم ویسے ہی کھڑا رہا اور جنات یہ سمجھتے رہے کہ آپ عبادت میں مشغول ہیں لہذا حضرت سلیمان علیہ السلام وفات کے کئی سالوں بعد تک اسی مقام پر عصا کے سہارے کھڑے رہے آخر کار جب اس عصا کو دیمک کھانے لگی اور وہ لاٹھی کمزور ہو گئی تو آپ علیہ السلام کا مبارک جسم زمین کی طرف جھکنے لگا تب جنات کو یہ علم ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات ہو چکی ہے اس واقعہ کو اللہ نے صبا میں یوں بیان فرمایا.پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم بھیجا تو جنوں کو ان کی موت کا علم نہ ہوا. مگر زمین کی دیمک ان کا عصا کھاتی رہی. اور جب سلیمان علیہ السلام زمین پر آئے تو جنوں پر وہ حقیقت کھل گئی. اگر وہ غیب جانتے تو اس خواری کے عذاب میں نہ ہوتے.

Scroll to Top