قوم عاد پر اللہ کا عذاب کیوں آیا؟ اور یہ قوم کتنی طاقتور تھی

ناظرین بحر عرب اور بحر احمر کے درمیان عرب کے جنوب و شمال میں یعنی دونوں جانب عمان خضرموت بحرین اور مغربی یمن تک ایک وسیع صحرا ہے جسے صحرا الاخقاف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہ صحرا اللہ کی کھلی نشانیوں میں سے اور اہل دنیا کے لیے جائے عبرت بھی الحق نامی بھیانک وادی کو دیکھ کر یہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کسی زمانے میں دنیا کا سب سے سرسبز و شاداب علاقہ تھا جہاں بے شمار پھلوں اور پھولوں کی وسیع باغات ٹھنڈے پانی کے چشمے آبشاریں اور بلند و بالا عمارتیں تھیں جس میں دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور مالدار اور شاندار تمدن رکھنے والی قوم عاد آباد تھی یہ دنیا کے سب سے زیادہ قد آور اور زور آور انسان تھے اتنے طاقتور لوگ اللہ نے پھر پیدا نہیں کیے جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کی سورۃ فجر میں ارشاد فرمایا ان جیسی کوئی قوم اور ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی خضر موت اور نجران کے درمیانی علاقے الاحقاف میں قوم عاد کہ جسے قوم ارم بھی کہا جاتا ہے تیرہ قبائل آباد ہیں قوم عاد کے الاحقاف میں رہنے سے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا خود کو یاد کرو جب کہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا علامہ جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر در منشور میں تحریر کرتے ہیں کہ قوم عاد نہایت زور آور اور بہادر قوم تھی بت پرست تھے ان کے دو بتوں کے نام حمود اور خب بیان کیے گئے ہیں ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں تیسرے بت کا نام ثمت بیان کیا ہے قوم نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں جس قوم کو عروج عطا ہوا وہ یہی قوم تھی ان کی عمریں آٹھ سو سے نو سو سال تک ہوتی تھیں وہ ساری عمر نہ بیمار ہوتے نہ ان کے دانت ٹوٹتے اور نہ ہی انہیں کوئی اور تکلیف ہوتی وہ تندرست و توانا اور صحت مند رہتے انہیں صرف موت ہی آتی تھی اور کچھ نہیں ہوتا تھا یہ قوم نہایت طاقتور خوب تند مند اور بہت قوی تھی جسمانی طاقت اور قوت میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا یہ اس قدر خوشحال تھے کہ اس سے قبل دنیا میں ایسی کوئی قوم نہیں گزری تھی یہ قوی الجسہ اور تنو تھے ایک ہاتھ سے درخت کو جڑ سے اکھاڑ لیتے نہ ان پر بڑھاپا آتا اور نہ بیماری اس قوم نے زمین کے ایک بڑے علاقے پر تقریبا پندرہ سو سال حکومت کی قرآن مجید میں اس قوم کو قوم عاد اور تاریخ اسلام کی کتابوں میں آد اولیٰ کے نام سے یاد کیا گیا ہے انہوں نے سخت اور بلند پہاڑوں کو کاٹ کر عالی شان محل بنانے کو ترجیح دی ان کی سرزمین سرسبز و شاداب اور باغات سے بھری ہوئی تھی۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں قوت عطا فرمائی تو شیطان نے انہیں بہکایا اور انہیں ان کے طاقت اور گھمنڈ کا غرور دلایا کہ تم سے زیادہ طاقتور کون ہے انہوں نے زمین میں خرابی کرنا شروع کر دی اور اپنی طاقت کا بے جا استعمال کرنے لگے یوں تو بت پرستی کی ابتدا قوم نوح کے زمانے میں شروع ہو چکی تھی اس قوم کے افراد اونچے مقامات پر اپنے نشانات تعمیر کرتے اور اپنی رہائش کے لیے اعلی اور عمدہ عمارات تعمیر کرتے انتہائی درازگد ہونے کی وجہ سے یہ لمبے لمبے ستون بناتے یہ ارم کی قوم کہلائی ان کے ستونوں کے کھنڈر اور پانی کا کنواں جس میں اب بھی موجود ہے آج بھی پایا جاتا ہے اس علاقے میں کھدائی کے دوران پتھر سے بنے برتن اور سکے بھی نکلے اس زمانے میں کثرت سے لوبان کی کاشت ہوتی تھی اس کا عرب ادویات اور خوشبوؤں میں استعمال ہوتا اور اسے برآمد کرنے سے قوم عاد خوشحال اور مالدار بن گئی تھی اس قوم کا دعویٰ تھا کہ اگر سات سال بھی قحط ہو تو ہم میں اتنی طاقت ہے کہ ہم اسے برداشت کر سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا ہوا کا سات رات اور آٹھ دن کا عذاب ہر سال کے مقابلے میں ایک دن تھا باوجود ہوا کے یہ لوگ سات دن تک زندہ رہے پھر آٹھویں دن صبح مر گئے اور ہوا نے انہیں اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا قرآن کریم کی سورہ اعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اور ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی خود کو بھیجا انہوں نے کہا بھائیو اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں کیا تم ڈرتے نہیں تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے تم ہمیں کم عقل نظر آتے ہو اور ہم تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں انہوں نے کہا میری قوم مجھ میں حماقت کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ میں رب العالمین کا پیغمبر ہوں۔ میں تمہیں اللہ کا پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہارا خیر خواہ ہوں۔ کیا تم کو اس بات پر تعجب ہوا کہ تم میں سے ایک شخص کے ہاتھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں ڈرائے۔ اور یاد کرو جب اس نے تم کو قوم نوح کے بعد سردار بنایا اور ڈھیل ڈول میں تم کو پھیلاؤ زیادہ دیا۔ پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ نجات حاصل کرو۔ وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کریں۔ اور جن کو ہمارے باپ دادا پوچھتے چلے آئے ان کو چھوڑ دیں پس اگر تم سچے ہو تو ہم کو جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو اس کو ہمارے پاس لے آؤ خود نے کہا تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر عذاب اور غضب نازل ہو چکا تم پر عذاب اور غضب مقرر ہو چکا ہے کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے اپنی طرف سے رکھ لیے ہیں جن کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی تو تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں پھر ہم نے خود کو اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے ان کو نجات بخشی اور جنہوں نے ہماری آیات جھٹلایا ان کی جڑ کاٹ دی اور وہ ایمان لانے والے تھے ہی نہیں سورہ حاکمہ میں ارشاد ہے اللہ نے تیز آندھی کا یہ عذاب سات راتوں اور آٹھ دنوں تک مسلسل جاری رکھا آندھی نے کسی ایک کو بھی باقی نہ چھوڑا یہ ہر ایک کے پاس پہنچ گئی غاروں کے اندر پہاڑوں کی گھاٹیوں اور چوٹیوں گھروں محلات اور قلعوں کے اندر سب کو فنا کر ڈالا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ آندھی جس کے ذریعے قوم یاد ہلاک کی گئی اللہ نے ان پر انگوٹھے جگہ کی مسل ہوا کھولی تھی۔ پس وہ ہوا پہلے دیہات میں گئی اور وہاں کے لوگوں اور مویشیوں اور مالوں کو اٹھایا اور آسمان اور زمین کے درمیان لے گئی۔ اللہ تعالی نے اس خوفناک آندھی سے حضرت خود علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو محفوظ رکھا اور انہوں نے ختیرا نامی ایک بستی میں پناہ لے لی۔ جہاں عذاب ان تک نہیں پہنچا اور وہ امن و امن سے رہے۔ حضرت حود علیہ السلام کی عمر ایک سو پچاس سال تھی آپ علیہ السلام کو پچاس برس کی عمر میں نبوت عطا ہوئی اور آپ پچاس برس تک قوم کو وعظ اور نصیحت کرتے رہے پھر قوم کی ہلاکت کے بعد مزید پچاس تک زندہ رہے اور اہل ایمان کو واضح درس فرماتے رہے

Scroll to Top