شب معراج کا مکمل واقعہ

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ایک ایسا سال بھی آیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورا سال نہایت غم زدہ رہے۔ اس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پیاری بی بی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا اور اپنے چچا ابو طالب کو کھو دیا تھا۔ اس کے علاوہ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر ایمان لے آئے تھے۔ ان کو بھی کفار کی جانب سے شدید ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر ایک رات وہ واقعہ ہوا جب غم کی اس تاریکی کو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے روشنی میں بدل دی۔ اس رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بستر میں آرام فرما رہے تھے۔ جب تاریخ انسانی کا سب سے عظیم معجزہ رونما ہوا۔ اس رات کی تاریکی میں حضرت جبرائیل علیہ السلام آسمانوں سے زمین پر اترے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینے مبارک کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ان کے دل مبارک کو باہر نکالا اور پھر زم زم کے مبارک پانی سے دھو کر اسے واپس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینے مبارک میں رکھ دیا اور پھر فرمایا کہ میرے ساتھ آئے باہر آپ کے لیے براق کی سواری کھڑی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر بیٹھ کر پلک جھپکتے سب سے پہلے مسجد اقصی تشریف لے گئے اور پھر وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمانوں کی جانب ایک عظیم سفر پر روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایک کر کے ان تمام آسمانوں کے دروازے کھولتے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ پہلے آسمان کے دروازے پر پہنچے جہاں ایک فرشتہ اس دروازے پر کھڑا تھا اس فرشتے نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے کہا کہ آپ کے ساتھ کون ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ محمد ہے فرشتے نے پھر پوچھا کہ کیا ان کو نبوت مل چکی ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں پھر اس فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا کہ آپ کے آنے کی اطلاع ہمیں مل چکی ہے آپ آسمانوں کے اس پہلے دروازے سے داخل ہو سکتے ہیں اس دروازے سے داخل ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لاتعداد فرشتوں کو دیکھا جو وہاں موجود تھے جن میں زیادہ تعداد سجدے کی حالت میں تھے یہاں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ نسل انسانی کے بانی ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام ہیں ان کے دائیں بائیں جانب بے شمار لوگ تھے جب دائیں طرف دیکھتے تو مسکراتے اور بائیں جانب نظر پڑتی تو غمگین ہو جاتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوالیہ نظروں سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا انہوں نے کہا کہ یہ نسل آدم ہے سیدھی جانب نیک لوگ ہیں اور بائیں جانب برے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف لوگوں کو مختلف حالتوں میں دیکھا۔ جن میں کسی یتیم کا حق مارنے والے سے لے کر غیبت کرنے والے قتل و فساد کرنے والے لوگ سب شامل تھے۔ جن میں ہر ایک مختلف سزا کی حالت میں تھا۔ مثلا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ کچھ لوگ اپنے ہونٹوں کو قینچیوں سے کاٹ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ حضور کی امت کے لوگ ہیں جو خود تو برائیاں کیا کرتے تھے لیکن دوسروں کو نیکیوں کا حکم دیا کرتے تھے اسی طرح زنا کاروں اور سود خوروں کو بھی مبتلا عذاب دکھایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب دوسرے آسمان پر تشریف لے گئے تو وہاں دو نوجوانوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ہوئی جن کے بارے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ یہ اللہ کے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسی علیہ السلام ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک درخت کو دیکھا جس پر بے شمار پتے تھے اور جس کے سامنے ایک فرشتہ کھڑا تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ فرشتہ کون ہے؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ موت کا فرشتہ حضرت عزرائیل علیہ السلام ہیں۔ جب دنیا میں ایک انسان پیدا ہوتا ہے تو اس درخت پر ایک پتا نمودار ہوتا ہے اور جب کسی کی موت ہوتی ہے تو اس درخت سے ایک پتہ مرجا کر گر جاتا ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیسرے آسمان میں داخل ہوئے جس آسمان کا دروازہ سفید موتی سے بنا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے وہ دروازہ کھل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے جب داخل ہوئے تو آپ نے وہاں ہزاروں فرشتوں کو دیکھا جو سجدے کی حالت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ فرشتے ہمیشہ سجدے کی حالت میں ہوتے ہیں وہاں سے آگے جا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوئی پھر آگے جا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور دروازہ دیکھا جس کو کھولنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پوری دوزخ کا نظارہ کروایا گیا جو بہت ہی ہیبت ناک منظر تھا پھر سے چوتھے آسمان کا سفر شروع ہوتا ہے۔ چوتھے آسمان پر ایک بار پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہزاروں لاکھوں فرشتوں کو دیکھا جو عبادت میں مشغول تھے۔ چوتھے آسمان پر حضرت ادریس اور حضرت نوح علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا۔ اس یادگار ملاقات اور آسمان کے ملکوتی مشاہدات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پانچویں آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ جس کو سرخ سونے سے بنایا گیا ہے۔ پانچویں آسمان تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت ہارون علیہ السلام سے کروائی گئی۔ جس کے بعد چھٹے آسمان کا دروازہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کھولا گیا۔ اس آسمان پر چھ لاکھ فرشتے اللہ کی عبادت میں مصروف تھے۔ اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساتویں آسمان کے دروازے سے داخل ہوئے۔ ساتویں آسمان پر آپ نے ان فرشتوں کو دیکھا جو باقی تمام فرشتوں سے بڑے تھے۔ اور جو ایک نامعلوم زبان میں ایک دوسرے سے بات کر رہے تھے۔ جن باتوں کی سمجھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ ہوئی۔ ساتویں آسمان کے عجائبات ہی کچھ اور تھے۔ زمین پر کعبۃ اللہ کے عین اوپر بیت المعمور فرشتوں کا قبلہ ہے۔ ایک وقت میں ستر ہزار فرشتے اس کا طواف کر رہے تھے۔ جو اتنی زیادہ تعداد میں تھے کہ پھر بارہ ان کی باری نہیں آتی تھی۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک انتہائی بڑے فرشتے کو دیکھا۔ جس کے بارے میں پوچھنے پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو بتایا کہ یہ حضرت اسرافیل علیہ السلام ہیں۔ اور جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ حضرت اسرافیل علیہ السلام کو صور پھونکنے کا حکم دیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بزرگ انسان کو دیکھا۔ جن کے اردگرد بچے کھیل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو سلام پیش کیا اور پھر ساتویں آسمان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسے مقام پر پہنچے جسے سدرة المنتہی کہا جاتا ہے۔ سدرۃ المنتہی عالم خالق اور آسمانوں اور زمینوں کے رب کے درمیان ایک حد ہے۔ یہاں تمام مخلوقات کا علم ختم ہو جاتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں زمین سے اوپر جانے والی اور اوپر سے اترنے والی اشیاء رک جاتی ہیں اس سے آگے عالم الغیب ہے جس کا علم نہ کسی مقرب فرشتے کو ہے اور نہ کسی رسول کو اسی مقام پر جنت المعوا ہے جس کا ذکر سورہ نجم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے جنت میں داخل ہوئے اور اس میں وہ تمام نعمتیں ہیں جسے کسی آنکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا پھر جنت میں کچھ وقت گزارنے کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام سدرة المنتہی سے کچھ آگے ایک مقام پر رک گئے اور عرض کیا کہ اگر اس مقام سے بال برابر بھی آگے بڑھو تو جل کر خاک ہو جاؤں گا۔ وہاں سے آپ اکیلے ہی آگے بڑھے تو ایک جگہ ایک قلم کی لکھائی کی آواز سنائی دی۔ پھر وہاں سے تھوڑا آگے جا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد ایک نور پھیل گیا۔ جہاں آپ نے اللہ کا دیدار کیا۔ اور اللہ نے آپ صلی اللہ کو سب سے قیمتی تحائف سے نوازا۔ جن میں سب سے قیمتی تحفہ پانچ وقت کی نماز کا تھا۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفر ختم ہوا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زمین پر واپس اتارا گیا تو آپ نے اپنے بستر کو اسی طرح محسوس کیا۔ جس طرح آپ اسے چھوڑ کر گئے تھے۔ جیسا کہ وہ تمام سفر ایک لمحے میں طے ہوا تھا۔ اتنے کم وقت چند سیکنڈ یا منٹ میں لاکھوں کروڑوں میل بلکہ نوری فاصلوں کا سفر کیسے ممکن ہو گیا

Scroll to Top