حضرت موسیٰ عليه السلام اور حضرت خضرعليه السلام کا دلچسب واقعہ

کتاب رحمت سورہ الکہف میں اللہ تعالی نے ایک واقعہ بیان کیا ہے حضرت موسی اور حضرت خضر علیہ السلام کا کہ حضرت موسی علیہ السلام عزم مصمم کر کے جب چلے تو اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے حضرت موسی علیہ السلام کو جس بندے کی نشانی بتائی تھی وہ بندہ ان کو وہاں مل گیا سفید چادر اوڑھے حضرت خضر علیہ السلام وہاں لیٹے ہوئے تھے تو یہ جا کے ان کے پاس کھڑے ہو گئے کہ حضرت میں آپ کی خدمت میں اس لیے آیا ہوں کہ اللہ نے آپ کو خصوصی علم عطا کیے ہیں میں ان کو سیکھنے کی غرض سے آپ کی چوکھٹ پہ آیا ہوں کہا تم میرے ساتھ صبر نہیں کر پاؤ گے معاملے مشکل ہیں سفر دشوار ہے منزل کٹھن ہے اور میرے معاملات ایسے ہیں کہ تم اعتراض کرو گے اس کے بغیر تم رہ نہیں سکتے حضرت موسی علیہ السلام نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو آپ دیکھیں گے میں صبر کروں گا اور آپ کے کسی حکم کی کسی کام کی میں نافرمانی نہیں کروں گا کسی کام کا انکار نہیں کروں گا کہا کہ اچھا شرط یہ ہے کہ جو میں کروں اس پر تم اعتراض نہیں کرو گے سوال نہیں کرو گے یہاں تک کہ میں خود ہی نہ بتاؤں تو کہا کہ یہ شرط ٹھہری میں کوئی بات نہیں کروں گا دونوں چل پڑے دریا کے پار جانا تھا جو کشتی کا مالک تھا وہ حضرت خضر علیہ السلام کو جانتا تھا تو اس نے کرایہ بھی نہیں لیا لیکن جب کشتی پر سوار ہوئے تو عصا مار کے حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی کا ایک پھٹا توڑ دیا تو بے ساختہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ نے پھٹا توڑ دیا یہ سارے ڈوب جائیں گے کہا میں نے کہا تھا نا تم میرے کاموں پہ صبر نہیں کر پاؤ گے تو حضرت موسی کو یاد آیا کہا میں بھول گیا تھا اس پر مواخذہ نہ کیجیے پھر دونوں چل پڑے بچے کھیل رہے تھے ایک خوبصورت لڑکا وہ بھی بچوں میں کھیل رہا تھا حضرت خضر آگے بڑھے اور اس کی گردن مروڑ دیاس لڑکے کو قتل کر دیا آپ صاحب شریعت تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام نہ رہ سکے پھر بول پڑے ایک جان کو بغیر کسی جان کے بدلے میں قتل کر دیا اس نے گوایا کیا تھا ہمارا آپ نے بہت ہی غلط کام کیا یہ کام اچھا نہیں کیا آپ نے کہا میں نے کہا نہیں تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر پاؤ گے کہا ایک موقع اور دے دیجیے اب اگر میں نے کوئی اعتراض اٹھایا تو پھر دوبارہ مجھے آپ اپنی صحبت میں نہ رکھیے گا پھر دونوں چل پڑے یہاں تک کہ ایک بستی میں دونوں آئے تو آپ نے بستی والوں سے کہا کہ ہم مہمان ہیں آپ ہماری مہمان نوازی کیجیے کھانا کھلائیے۔ انہوں نے انکار کر دیا کہا کہ ہم نے تو آپ کو بلایا نہیں ہے آپ خود آئے ہیں آپ اپنے کھانے کا خود انتظام کیجیے دونوں چل پڑے گزر رہے تھے گلی سے ایک دیوار گرنا چاہ رہی تھی تو جلدی سے اس دیوار کو مرمت کر دیا کہا حضرت ہم اگر چاہتے تو اس پہ اجر لے سکتے تھے انہوں نے ہمیں کھانا تک نہیں دیا اور ہم ان کی دیواریں سیدھی کر رہے ہیں کہا اب تمہاری میری جدائی ہو گئی تم نے یہ بھی اعتراض کر دیا تو انہیں یاد آیا کہ اوہو یہ بھی اعتراض ہو گیا اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ یہ تین کام میں نے کیوں کیے کہا وہ پہلی بات کشتی والی سنو یہ دو مسکین بچوں کی کشتی تھی ان کے گھر کا چولہا اس کی کمائی سے جلتا تھا دریا کے کنارے کنارے ایک ظالم بادشاہ آرہا تھا جو لوگوں کی کشتیاں چھین رہا تھا ہم نے تھوڑا سا عیب لگا دیا وہ ٹوٹی کشتی چھوڑ کے چلا گیا اب وہ تھوڑے سے پیسے لگا کے کشتی مرمت کرا لیں گے گھر کا چولہا جلتا رہے گا بتاؤ اچھا کیا یا برا کیا کہا رہی بات اس بچے کی جس کو ہم نے قتل کیا اس کے ماں باپ مومن تھے نیک تھے بچے نے بڑا ہو کے بہت برا ہونا تھا ہم نے اس کو قتل کر دیا اللہ اس کے بدلے ان کو بہتر اولاد دے گا۔ علمائے تفسیر نے لکھا ہے اس بچے کے بدلے میں اللہ نے ان والدین کو ایک بیٹی عطا کی جس کی نسل سے ستر نبی پیدا ہوئے۔ دیوار کی کہانی بھی سن لیجیے۔ یہ شہر کے دو یتیم بچوں کی دیوار تھی۔ اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ بڑا نیک تھا۔ خزانہ دیوار کے نیچے ہے۔ دیوار گرنا چاہ رہی ہے۔ کسی معمولی دھکے سے گر جاتی۔ دو ہی صورتیں تھی یا وہ بچے خود اپنا خزانہ اٹھا لیتے یا لوگ اٹھا کے لے جاتے۔ لوگ اٹھا کے لے جاتے پھر بھی ہاتھ میں کچھ نہ آیا اور اگر وہ خود اٹھا لیتے تو بچے ہیں۔ بچپنے کی وجہ سے وہ اس کو اڑا دیتے۔ تو ہم نے اس کے دیوار کھڑی کر دی۔ جب تک وہ اس قابل نہیں ہو جاتے کہ یہ خزانہ نکال کے اس کو صحیح مصرف پہ لگا سکیں۔ اتنی دیر تک دیوار گرے گی نہیں۔ اللہ اکبر وہ کسی وجہ سے دیوار قائم رہے گی۔ اور جب وہ اس عمر کو پہنچ جائیں گے۔ جس عمر میں وہ اس خزانے کو سنبھال سکیں گے۔ تو پھر دیوار خود بخود گر جائے گی اور یہ خزانہ نکال کر کے اپنے کام پہ لے آئیں گے۔
میں نے جب پہلی مرتبہ اس کو غور کے ساتھ تلاوت کیا تو مجھے یہ لگا کہ اس کا انتباہ پاکستان کے حالات پہ بھی ہو سکتا ہے.
اس لیے کہ یہ بھی یتیموں کا سرمایہ ہے. جتنے یتیم روتے بلکتے رہ گئے اور ان کے سر سے سائے اٹھ گئے اس وطن کے لیے.
لیکن میرے مالک نے اس ملک کے خزانوں پر گہرے پہاڑ اور بڑی بڑی دیواریں کھڑی کر دی ہیں. جب تک یہ قوم بلوغت تک نہیں پہنچے گی. اتنی دیر تک وہ خزانے ظاہر نہیں ہوں گے. اور جب یہ قوم بلوغت تک پہنچے گی شعوری بلوغت, فکری بلوغت, علمی بلوغت اور رب سے جو وعدہ کیا تھا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ جب اس بلوغت تک یہ پہنچ جائے گی اس وعدے کی تکمیل ہو گی پھر رب دیوار ہٹا دے گا.
اور پاکستان کو اللہ اتنے خزانے دے گا اور پاکستان ایسا مالا مال ہو گا دنیا دیکھنے آئے گی انشاءاللہ. اس لیے رب نے دیواریں بنا کے رکھیں تمہارا باپ معین الدین چشتی بڑا نیک تھا. تمہارا باپ داتا گنج بخش علی ہجویری بڑا نیک تھا. تمہارا باپ حضرت مجدد الف ثانی بڑا نیک تھا. ان کی وجہ سے میں دیواریں کھڑی کر رہا ہوں اور مضبوط حصار لگا رہا ہوں تمہارے خزانوں پر اور وہ وقت آئے گا جب تم بلوغت کی عمر کو پہنچو گے دیواریں ہٹ جائے گی اور تمہارا وطن زمانے پہ مہکتے پھول کی طرح اور چمکتے ستاروں کی طرح اور روشن آفتاب کی طرح چمکتا اور مہکتا دکھائی دے گا اور زمانہ پاکستان دیکھنے آئے گا پاکستان دنیا کی قیادت کرے گا انشاءاللہ تو یہ باتیں ہیں شاید ان باتوں کے جوش میں یہ بات بھی میں کر گیا وہ کیا کسی نے کہا تھا کہ بھری محفل میں نے ایک راز کی بات کہہ دی بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

Scroll to Top