حضرت محمدﷺ کی وفات کا رولا دینے والا واقعہ

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر کے دن پیدا ہوئے۔ پیر کے دن مکہ مکرمہ سے ہجرت کی۔ پیر کے دن مدینہ منورہ تشریف لائے اور وصال بھی بارہ ربیع الاول پیر کے دن ہی فرمایا۔ آپ کے مدت مرض بارہ دن تھی۔ اور آپ کا بخار درد سر کے سبب تھا۔ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ سورہ نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے میرے انتقال کی خبر دے دی گئی ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر اس حال میں تشریف لائے کہ آپ کو سخت بخار تھا حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب میں صبح کو بیدار ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ کے پاس حاضر ہوا تو عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ارشاد فرمایا اے فاطمہ بلال سے کہہ دو کہ ابوبکر کو سلام کہو اور کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں حضرت بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں روتا ہوا واپس پلٹا میں مدینے کی گلیوں میں گھومتا جاتا اور کہتا جاتا آ میرے سردار آ میرے جلیل القدر نبی کاش بلال کو اس کی ماں نہ جنتی اس کے بعد حضرت بلال مسجد میں آئے تو مسجد لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور حضور کا سلام و پیغام پہنچایا اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے صدا لگا کر نماز کے لیے اقامت کہی جب اللہ اکبر کہا تو مسلمان سب رونے لگ گئے حضرت بلال رضی اللہ عنہ پر رکعت طاری ہوگئی وہ رونے لگے اور روتے روتے اقامت کہی اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور لوگوں کو امامت کرائی جب آپ رضی اللہ عنہ نے بسم اللہ شریف پڑھ کر سورۃ فاتحہ کی تلاوت شروع کی تو آپ رضی اللہ عنہ کی نظر اس جگہ پر پڑی جہاں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرمایا کرتے تھے تو رونے سے آپ کی ہچکی بن گئی۔ اور سب لوگ رونے لگے۔ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کا رونا دھونا سنا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمایا یہ مسجد میں آہ و بقاء رونے کی آواز کیسی ہے انہوں نے عرض کی لوگوں نے آپ کو نماز میں نہ پایا اس لیے رو رہے ہیں۔ آپ نے اپنا سر اقدس اٹھایا اور دعا کی یا اللہ بخار پر فرشتے کو حکم دے کہ تیرے نبی کی سختی تھوڑی سی کم کر دے تاکہ میں جا کر لوگوں کو نماز پڑھا لوں اور دنیا چھوڑنے سے پہلے اپنے صحابہ کو الوداع کہہ لوں اس کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا اور حضرت سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا سہارا لے کر گھر سے باہر تشریف لائے جب مسلمانوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انوار مسجد میں داخل ہوتے دیکھے تو آپ کی آمد محسوس کی تو صف در صف جدا ہوتے جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے درمیان سے گزرتے جاتے حتیٰ کہ آپ محراب اقدس کے پاس پہنچ گئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے برابر کھڑے ہو کر لوگوں کو نماز پڑھائی اس کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر اقدس پر جلوہ افروز ہوئے اور ارشاد فرمایا اللہ کی حمد و ثناء کی اور الوداع کہنے والے کی طرح چہرہ اقدس لوگوں کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا اے لوگوں کیا میں نے تم کو رسالت نہ پہنچا دی اور نصیحت و امانت ادا نہ کر دی لوگوں نے عرض کی کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک آپ نے رسالت پہنچا دی اور امانت کر دی اور امت کی خیر خواہی کی اور اللہ کی عبادت کی یہاں تک کہ آپ کا آخری وقت آ گیا اللہ ہماری طرف سے آپ کو ہر نبی کی جزا سے افضل جزا دے جو اس نے ہر نبی کو اس کی امت کی طرف سے عطا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ممبر شریف سے اترے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ و اجمعین کو الوداع کہا ان سے ہاتھ ملایا تمام صحابہ کرام رو رہے تھے پھر دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور مرض میں مبتلا رہے یہاں تک کہ ملک الموت ایک آدمی کے روپ میں حاضر خدمت ہوئے اور حجرہ اقدس کے دروازے پر کھڑے ہو کر عرض کی السلام علیکم اے سر چشمہ نبوت و رسالت کے اہل بیت کیا مجھے آپ کی خدمت میں حاضری کی اجازت ہے حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہ نے جوابا فرمایا اے شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے آپ میں مشغول ہیں۔ اس نے پھر عرض کی تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دروازے سے جھانکا اور ملک الموت کو دیکھ کر حضرت فاطمۃ الزہرا سے ارشاد فرمایا جانتی ہو تمہارا مخاطب کون ہے؟ عرض کی ابا جان کوئی شخص ہے ارشاد فرمایا میری بیٹی یہ وہ ہے جو بغیر اجازت کے آتا ہے۔ اسے آنے دو بس وہ حاضر خدمت ہوئے سلام کیا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ نے مجھے یہ حکم دے کر بھیجا ہے کہ آپ کی اجازت کے بغیر آپ کی روح قبض نہ کروں آپ کا کیا حکم ہے حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ٹھہر جاؤ حتیٰ کہ جبرائیل کو آنے دو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم نے ایسی بات کا سامنا کیا جس کے متعلق ہمارے پاس کوئی رائے نہ تھی گویا ہم پر کوئی مصیبت آن پڑی ہو اس بات کی بڑھائی اور ہیبت کی وجہ سے گھر میں سے کوئی بھی بول نہ سکتا تھا حضرت جبرائیل امین علیہ السلام حاضر ہوئے اور عرض کی اللہ آپ کو سلام فرماتا ہے اور آپ کی مزاج پرسی فرماتا ہے حالانکہ وہ آپ کی حالت خوب جانتا ہے لیکن وہ آپ کو مزید کرامت و شرف عطا کرنا چاہتا ہے آپ نے فرمایا اے جبرائیل ملک الموت نے مجھ سے اجازت طلب کی ہے اور پھر آپ نے پوری بات بتائی جبرائیل امین علیہ السلام نے عرض کی یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا رب آپ سے ملاقات کا مشتاق ہے کیا اس نے نہیں بتایا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے خدا کی قسم ملک الموت نے آج تک کسی سے اجازت طلب نہیں کی لیکن آپ کے شرف و مرتبہ کو پورا کرنے والا ہے پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ملک الموت کے آنے تک آپ یہاں سے نہ جائیے آپ نے خواتین کو اجازت دی اور ارشاد فرمایا اے فاطمہ میرے قریب ہو جاؤ وہ حاضر خدمت ہوئی تو آپ کی طرف جھک گئی آپ نے ان کے کان میں سرگوشی فرمائی انہوں نے اپنا سر مبارک اٹھایا تو آنکھوں سے آنسو جاری تھے ان میں بات کرنے کی سکت نہ تھی سرکار عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا اپنا سر میرے قریب کردو تو وہ دوبارہ آپ کی طرف جھک گئی آپ نے دوبارہ سرگوشی فرمائی خاتون جنت رضی اللہ عنہا نے سر اٹھایا تو وہ مسکرا رہی تھیں لیکن کلام کرنے کی طاقت نہ تھی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہمیں ان کی حالت سے بہت تعجب ہوا اس کے بعد ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ میں آج انتقال کر جاؤں گا تو میں رونے لگی پھر فرمایا میں نے دعا کی ہے کہ اللہ میرے گھر والوں میں سب سے پہلے مجھے تجھ سے ملائے اور میرے ساتھ رکھے چنانچہ اس بات نے مجھے خوش کر دیا پھر ملک الموت حاضر خدمت ہوئے سلام کیا اور اجازت طلب کی اجازت ملنے کے بعد عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ اب مجھے آپ کیا حکم فرماتے ہیں ارشاد ہوا مجھے میرے رب کریم سے ملا دو انہوں نے عرض کی جی ہاں آج ہی ملا دیتا ہوں اور جبرائیل امین علیہ السلام بھی یہ عرض کرتے ہوئے چل دیے یا رسول اللہ آج میں آخری بار زمین پر اترا ہوں وہی لپیٹ دی گئی اور دنیا سمیٹ دی گئی مجھے دنیا میں آپ کے علاوہ کسی سے کوئی کام نہ تھا اور مجھے آپ کی محبت ہی مقصود تھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک میری گود میں رکھا آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی یہاں تک کہ بے ہوشی غالب آگئی اور آپ کی پیشانی سے اس قدر پسینہ ٹپکتا تھا کہ میں نے کبھی کسی انسان سے اس قدر پسینہ بہتے نہیں دیکھا میں وہ پسینہ پونچھتی جاتی تھی اور اس سے زیادہ خوشبودار چیز میں نے کبھی نہیں دیکھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقت وصال جبرائیل امین علیہ السلام سے پوچھنے لگے میرے بعد میری امت کے لیے کون ہوگا تو اللہ نے جبرائیل امین علیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمائی کہ میرے محبوب کو خوشخبری سنا دو کہ میں اس سے اس کی امت کے سلسلے میں رسوا نہیں کروں گا اور اسے یہ خوشخبری بھی دے دے کہ جب لوگوں کو قبروں سے باہر نکالا جائے گا تو سب سے پہلے میرا حبیب باہر تشریف لائے گا جب لوگ جمع ہوں گے تو میرا محبوب ان کا سردار ہوگا اور جب تک ان کی امت جنت میں داخل نہ ہو جائے تمام امتوں پر جنت حرام ہے یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اب میری آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں اور میرا دل خوش ہو گیا ہے جب آپ کو ہوش آیا تو میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ کی پیشانی پر اس قدر پسینہ کیوں ہے حضور نے ارشاد فرمایا اے عائشہ مومن کی جان پسینے کے ذریعے نکلتی ہے اور کافر کی جان گدھے کی طرح اس کے بانچھوں سے نکلتی ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک میری گود میں ہی تھا کہ آپ نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی آپ کی وصال کی خبر سب سے پہلے امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہوئی اور وہ سب سے پہلے حاضر ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس پر یمنی چادر تھی آپ نے چہرے مبارک سے چادر ہٹائی بوسہ لیا اور روتے روتے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ نے پاکیزہ زندگی گزاری اور پاکیزہ وصال فرمایا جو موت اللہ نے آپ کے لیے لکھ دی تھی وہ آپ نے پا لی۔ اسلام کے لیے خیر خواہی پر اللہ آپ کو بہترین جزا عطا فرمائے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کی طرف نکلے اور آپ کے وصال کی خبر دی۔ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ کی فریاد نکلی۔ اے میرے عظیم باپ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہ نے صدا لگائی۔ اے ہمارے جد کریم ہر مسلمان نے غم و علم میں ڈوب کر کہا اے ہمارا رنج و علم حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے وصال پر ملال پر شدت غم سے خلفائے راشدین امیرالمومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر بن خطاب حضرت سیدنا عثمان غنی اور امیرالمومنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے اشک رواں تھا۔

Scroll to Top