حضرت محمدﷺ اور ایک غریب صحابی کا واقعہ

دوستوں آج میں آپ کے ساتھ ایسا عمل لے کر حاضر ہوا ہوں جو بہت ہی چھوٹا سا عمل ہے دوستوں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی جو بہت غریب تھے. ایک دن نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھ لیا کہ اے میرے غلام کیسے دن بیت رہے ہیں. صحابی نے عرض کی آقا رشتہ داروں میں برادری میں امیر لوگ بھی ہیں.اونچے اونچے خاندان والے ہیں. مگر میں بہت غریب ہوں. اور اس غریبی کی وجہ سے کوئی میری طرف توجہ نہیں دیتا. میرے آقا میں غریب ہوں.دوستوں وہ اپنے دکھ درد نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا رہا تھا. کہ اچانک جبرائیل علیہ السلام آگئے اور فرمایا اے اللہ کے حبیب آپ جس جوان سے محبت بھری گفتگو فرما رہے ہیں.یہ تو کل ظہر تک زندہ ہے. کل ظہر کے وقت تک اس کی زندگی ہے. پھر یہ فوت ہو جائے گا.جبرائیل علیہ سلام نے اتنی ہی بات بتائی اور واپس چلے گئے.جب فرشتوں کے سردار یہ خبر دے کر واپس چلے گئے تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے. پھر حضور پاک نے اس نوجوان سے پوچھا. اے میرے غلام تمہاری زندگی کی کوئی سب سے بڑی خواہش ہو تو مجھے بتاؤ تاکہ وہ پوری کر دی اس نوجوان کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور فرمایا اے اللہ کے محبوب غریبوں کی حسرتیں کیا پوچھتے ہیں آقا جب سے آنکھ کھولی ہے غریبی ہی دیکھی ہے کبھی زندگی میں میٹھا نہیں کھا سکا اتنی غربت تھی اور میرے آقا آپ نے پوچھ لیا ہے تو عرض کرتا ہوں میری دو حسرتیں ہیں جو زندگی بھر پریشان کرتی رہی ہیں کبھی پوری نہیں ہوئی آپ نے فرمایا وہ کون سی حسرتیں ہیں غلام نےکھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلی یہ کہ کبھی زندگی میں میٹھا نہیں کھایا.ساری زندگی طلب ہی رہی لیکن میٹھا نہ کھا سکا اور دوسری یہ کہ میں جوان بھی ہوں. آپ کا غلام بھی ہوں. کاش کوئی نیک بیوی مجھے مل جاتی. مجھے زندگی کا ساتھی مل جاتا.کوئی میری طرف دیکھتا بھی نہیں ہے. ابھی اتنی بات کہنی تھی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے پاس بلایا اور اس نوجوان سے پوچھا تمہاری نظر میں کوئی رشتہ ہے نوجوان کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے چچا کی بیٹی ہے خوبصورت ہے نیک بھی ہے لیکن غریبی کی وجہ سے وہ مجھے پوچھتے نہیں ہیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں پر سلام آپ نے فورن اس کے چچا کو بلایا اور کہا اپنی بیٹی کو دلہن بنا میں نے اپنے غلام کا نکاح اس کے ساتھ کر دیا ہے.ابھی رخصتی ہوگی اور ابھی نکاح ہوگا. آپ نے حضرت عثمان اور حضرت علی شیر خدا کو بلایا. اور فرمایا نوجوان کے لیے نئے کپڑے لے کر آؤ. کسی صحابی سے کہا برتنوں کا انتظام کرو. کسی سے کہا چارپائیوں کا انتظام کرو. یعنی سب کی الگ الگ ڈیوٹی لگا دی. اور پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا. اس کے لیے ایسا حلوہ بناؤ جو پہلے کبھی نہ بنایا ہو.کل اس نے چلے جانا ہے آج اس کی دونوں حسرتیں پوری کر دی جائیں. دوستوں پھر مسجد نبوی میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نکاح پڑھا دیا. پھر آپ نے ایک صحابی سے کہا تمہارا گھر خالی ہے. ان دونوں کو وہاں لے جاؤ. اور ان کا سارا سامان اور کھانے پینے کی چیزیں وہی لے جاؤ. جب رات گزری تو اگلے دن نبی پاک نے اس صحابی کو لایا اور کہا کہ آج ظہر کے وقت اس گھر کے پاس چلے جانا جس دولہے کی کل شادی کی ہے اور عصر کے وقت تک اس گھر کے آس پاس چکر لگاتے رہنا اور دھیان رکھنا اندر سے کوئی رونے کی آواز تو نہیں آئی اور جیسے ہی رونے کی آواز آئے مجھے آکر بتا دینا.دوستوں وہ صحابی عصر کے وقت تک اس کے گھر کے آس پاس چکر لگاتے رہے اور جب بھی گھر کے پاس جاتے تو اندر سے ہنسی خوشی کی آواز آتی.خوشیوں کی آواز آئے لیکن رونے کی آواز نہ آئے. جب عصر کا وقت ہو گیا تو وہ صحابی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں تو کوئی رو نہیں رہا ہے.وہاں سے ہنسی خوشی کی آواز آ رہی ہے.دوستو حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں گر پڑے. اور فرمایا مولا یہ کیا راز ہے.کل جبرائیل نے خبر دی تھی کہ اس نوجوان کی ظہر کے وقت وفات ہو جائے گی. تو اللہ کی طرف سے آواز آئی اے میرے محبوب مجھے اپنی عزت کی قسم جو جبرائیل نے خبر دی تھی وہ سچ فرمایا تھا. تقدیر یہی تھی کہ آج اس جوان نے مر جانا ہے. ظہر کے وقت فوت ہو جانا ہے. لیکن میرے حبیب جب آپ نے اس نوجوان کی شادی کے بعد دولہا دلہن کو گھر بھیج دیا تو جب وہ عشاء کے وقت کھانا کھانے کے لیے دسترخوان پر بیٹھے. ابھی لقمے توڑ کر منہ میں ڈالنے لگے تھے کہ باہر دروازے پر کسی غریب نے دستک دے دی. اس نے آواز دی میں کئی دنوں سے بھوکا ہوں. مجھے کھانا دے دو. اس صحابی نے اپنی بیوی سے کہا میرے لیے اتنے شرف کی بات ہے کہ آقا نے میرا نکاح تمہاری جیسی نیک بیوی سے کر دیا ہے.اگر اجازت ہو تو یہ سارا کھانا اٹھا کر غریب کو نہ دے دیں. تو اللہ فرماتا ہے اے میرے محبوب اس جوان نے وہ میٹھا جو ساری زندگی نہیں کھایا تھا اٹھا کر میرے نام پہ دے دیا. تو جب وہ روٹی اور حلوہ فقیر کی جولی میں پہنچا تو اس فقیر نے دونوں ہاتھ اٹھا دیے. اور کہا اے مولا ان کی جوڑی سلامت رکھنا. ان کو خوشیاں دینا.ان کو اولاد دینا. پھر اللہ فرماتا ہے اے میرے حبیب مجھے اپنی عزت کی قسم تقدیر میں یہی تھا کہ اس نے کل ظہر کے وقت مر جانا ہے. لیکن جب اس نے غریب کی مدد کی اس کو کھانا کھلایا تو میں نے اس کی تقدیر بدل کر زندگی بڑھا دی.دوستو آج اگر ہم دیکھیں تو ہمارے اردگرد ہمارے ہمسایوں میں رشتہ داروں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں.جو غریب ہیں غربت کی وجہ سے پریشان ہیں. بیماریوں کی وجہ سے پریشان ہیں. اپنے پڑوسیوں میں دیکھو کوئی بھوکا تو نہیں سو گیا. اپنے رشتہ داروں میں دیکھو. ان کے حالات تنگ تو نہیں ہے ان کی مدد کرو اللہ تعالی کو یہ ادا اتنی پسند آ گئی کہ آپ کی قسمت سنور جائے گی ہم لوگ بہت سے وظیفے پڑھتے ہیں تسبیحات پڑھتے ہیں لمبے لمبے سجدے رکوع کرتے ہیں لیکن دوستوں اگر ہمارے ساتھ والا ہمسایہ بھوکا ہی سو گیا تو ہمارے وظیفے کسی کام نہیں آئیں گے ہماری تسبیحات کسی کام نہیں آئیں گی کسی کی مدد کر دیں. کسی کی ضرورت پوری کر دیں. انشاءاللہ اگر آپ کے دل میں کوئی بھی حاجت ہوگی. کوئی بھی مقصد ہوگا جو آج تک پورا نہیں ہوا ہوگا. تو میرا پروردگار میرا اللہ آپ کا وہ ہر مقصد پورا فرما دے گا

Scroll to Top