قوم لوط
دوستو قوم لوط وہ بد بخت قوم ہے جنہوں نے ایسی برائی کو ایجاد کیا جو ان سے پہلے دنیا میں کسی قوم نے نہ کیا تھا۔ ایسی بدکاری جس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ اس قوم نے ایسا کیا کام کیا تھا اور ان کا کیا انجام ہوا اس بارے میں مکمل تفصیل سے آگاہ کریں گے اسی لیے ویڈیو کو سکپ کیے بغیر مکمل دیکھیں تاکہ آج کی اس ویڈیو کا مقصد آپ سب احباب کو سمجھ میں آسکے
دوستو قوم لوط کے متعلق آپ کو بتانے سے پہلے مختصرا حضرت لوط کا تعارف آپ سبھی کو بیان کیے دیتے ہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام اللہ کے ایک برگزیدہ نبی تھے۔ آپ کے والد کا نام ہاران تھا۔ آپ کی پیدائش عراق کے قدیم شہر عور میں ہوئی تھی۔ اس شہر میں ابراہیم علیہ السلام کا مسکن تھا۔ دراصل لوط علیہ السلام کے والد حرام حضرت ابراہیم کے سگے بھائی تھے۔ یعنی حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم کے بھتیجے تھے۔ چونکہ حضرت لوط علیہ السلام کے والد ان کے بچپن میں ہی انتقال کر چکے تھے لہذا حضرت لوط کو حضرت ابراہیم نے بیٹا بنا کر پالا تھا۔ آپ حضرت ابراہیم پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں شامل ہیں۔ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم کے زمانے میں اہل سدوم کی رہنمائی کے لیے نبوت کے منصب پر فائز ہوئے۔ حضرت لوط کے بہت سارے معجزات ہیں۔ جن میں سے چند ایک یہ تھے کہ آپ جس وقت بارش کے لیے دعا کرتے تھے تو آسمان بادلوں سے بھر جاتا اور خوب بارش ہوتی تھی۔ حضرت لوط جس پتھر پر سر رکھ کر سوتے اس پتھر پر آپ کے سر مبارک کا نشان بن جاتا تھا۔
سدوم وہ علاقہ تھا جہاں لوط علیہ السلام مبعوث فرمائے گئے۔ سدوم کے آس پاس پانچ نہایت ہی خوبصورت شہر آباد تھے۔ جن میں سے ہر ایک کی آبادی ایک لاکھ نفوس سے زیادہ ہی تھی۔ یہ علاقے نہایت ہی سرسبز و شاداب اور قدرت کی فیاضی کا حسین شاہکار تھا۔ یہاں باغات کی کثرت تھی۔ لہلہاتی کھیتیاں یہاں کی ضروریات سے کہیں زیادہ تھی۔ اردون، شام اور اسرائیل کے درمیان بسا ہوا یہ علاقہ نہایت ہی زرخیز تھا۔ وہاں طرح طرح کے اناج، پھل، میوے، بکثرت پیدا ہوتے تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ آس پاس کے بستیوں کے لوگ بھی اپنی معاشی اور غذائی ضرورت کے لیے ان بستیوں کی طرف آتے تھے۔
مگر یہ بات اہل سدوم کے لوگوں کو بالکل بھی پسند نہ تھی۔ ان کے خیال میں ان کی بستیوں میں پیدا ہونے والے پھلوں، اناجوں اور سبزیوں پر صرف ان کا ہی حق تھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ دوسری بستیوں کے لوگ ان کے علاقے میں آئیں ۔ ایک دن سدوم کے لوگ اس بات پر غور و فکر کر رہے تھے کہ باہر سے آنے والے لوگوں کو یہاں آنے سے آخر کیسے روکا جائے کہ ابلیس ایک بزرگ کی شکل میں ان کی محفل میں آیا اور کہا اگر تم ان سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہو تو میرے کہنے پر عمل کرو پھر سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہوۓ تو ابلیس نے کہا میں کل تم سب کو اس کا حل بتاؤں گا دوسرے دن ابلیس ایک خوبصورت جوان لڑکے کے بھیس میں آیا اور انہیں اپنی عورتوں کی بجائے مردوں کے ساتھ فعل بد کرنا سکھایا
ابلیس نے کہا کہ اگر تم ان بستیوں کے لوگوں سے نجات چاہتے ہو جو تمہاری بستی میں آ جاتے ہیں تو ایسا کرو کہ جب بھی کوئی شخص تمہارے علاقے میں آئے تو تم لوگ زبردستی اس کے ساتھ اپنی خواہش پوری کرو اس طرح یہ لوگ اس بستی میں آنا چھوڑ دیں گے پھر ہوا یوں کہ اپنی نفسانی خواہشات کے لیے مردوں سے بدفعلی اس قوم کا دستور بن گیا تھا۔ یہاں بے حیائی عام ہو گئی تھی۔ حکمراں، سردار، راؤسہ، ہر طبقے میں گھر گھر یہ عمل پھیل گیا تھا۔ بھری محفل میں یہ لوگ اس فحاشی کے کام کو کر کے خوش ہوتے تھے۔ کوئی بھی محفل اس کام کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی تھی۔ خاص کر مسافروں میں سے کوئی خوبصورت لڑکا ہوتا تو یہ لوگ اسے اپنا شکار بنا لیتے۔
تلمود میں لکھا ہے کہ اہل صدوم اپنی روزمرہ کی زندگی میں سخت ظالم، دھوکے باز اور بد معملہ تھے۔ کوئی مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہ گزر سکتا تھا۔ کوئی غریب ان کی بستیوں سے روٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا۔ بارہا ایسا ہوتا تھا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مر جاتا اور یہ اس کے کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کر دیتے۔ اپنی وادی کو انہوں نے ایک باغ بنا رکھا تھا۔ جس کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس باغ میں وہ انتہائی بے حیائی کے ساتھ اعلانیہ بدکاریاں کرتے تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور بدکاری کے اس گھناؤنے عمل سے توبہ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت لوط نے کہا تم بے حیائی کیوں کرتے ہو؟ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذت حاصل کرنے کے لیے مرد کی طرف مائل ہوتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو۔
حضرت لوط اہل سدوم کو دن رات وعظ و نصیحت کیا کرتے۔ لیکن قوم پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا بلکہ وہ بہت فخریہ انداز میں یہ کام کرتے تھے۔ انہیں حضرت لوط کا سمجھانا بھی برا لگتا تھا۔ لہذا انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر تم ہمیں اسی طرح برا کہتے رہے اور ہمارے کاموں میں مداخلت کرتے رہے تو ہم تمہیں اپنے شہر سے نکال دیں گے۔ حضرت لوط نے نصیحت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔ لہذا ایک دن اہل سدوم نے خود ہی عذاب الہی کا مطالبہ کر دیا۔ اللہ تعالی نے اب تک ان کے اس بدترین فحاشی اور بدکاری کو ڈھیل دے رکھی تھی۔ لیکن جب انہوں نے حضرت لوط سے ایک دن کہا کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لے آؤ۔ لہذا ان پر عذاب الہی کا فیصلہ ہو گیا۔ اللہ نے اپنے خاص فرشتوں کو دنیا کی طرف روانہ کر دیا۔ یہ فرشتے دراصل حضرت جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل علیہ السلام تھے۔ پھر یہ فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تشریف لے آئے۔
حضرت لوط نے جب ان خوبصورت نوعمر لڑکوں کو دیکھا تو سخت گھبراہٹ اور پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ انہیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اگر ان کی قوم کے لوگوں نے انہیں دیکھ لیا تو نا جانے وہ ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ حضرت لوط کی بیوی کا نام وائلہ تھا۔ اس نے آپ پر ایمان نہ لایا تھا۔ اور وہ دراصل منافقہ تھی۔ وہ کافروں کے ساتھ تھی۔ لہذا اس نے جا کر اہل سدوم کو یہ خبر دے دی کہ لوط کے گھر نوجوان لڑکے مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں یہ سن کر بستی والے دوڑتے ہوئے حضرت لوط کے گھر پہنچے حضرت لوط نے کہا اے قوم یہ جو میری قوم کی لڑکیاں ہیں یہ تمہارے لیے جائز اور پاک ہیں اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو کیا تم میں سے کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں حضرت لوط کی بات سن کر وہ لوگ بولے تم بخوبی واقف ہو کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی حاجت نہیں اور جو ہماری اصل چاہت ہے اس سے تم بھی واقف ہو۔
قوم لوط کے اس بے شرمانہ جواب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ فعل بد میں کس حد تک مبتلا ہو چکے تھے۔ جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم ان کے گھر کی طرف دوڑتی ہوئی آئی تو حضرت لوط نے گھر کے دروازے بند کر دیے اور ان نوجوانوں کو ایک کمرے میں چھپا دیا۔ اس بدکار لوگوں نے آپ کے گھر کا گھیراؤ کیا ہوا تھا۔ اور ان میں سے کچھ گھر کے دیوار پر بھی چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ حضرت لوط اپنے مہمانوں کی عزت کے سے بہت زیادہ گھبرائے ہوئے تھے فرشتے یہ سب منظر دیکھ رہے تھے جب انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی بے بسی اور پریشانی کا یہ عالم دیکھا تو حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے یوں فرمایا اے لوط ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں یہ لوگ ہرگز تم تک نہیں پہنچ سکیں گے ابھی کچھ رات باقی ہے تو تم اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں
اہل سدوم حضرت لوط کے گھر کا دروازہ توڑنے پر باضد تھے لہذا حضرت جبرائیل علیہ السلام نے گھر سے باہر نکل کر اپنے پر کا ایک کونا انہیں مارا جس سے ان سب کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکل آئے اور بصارت زائل ہو گئی یہ خاص عذاب ان لوگوں کو پہنچا جو حضرت لوط کے پاس بدنیتی سے آئے تھے حضرت لوط علیہ السلام حقیقت حال جان کر مطمئن ہو گئے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ رات ہی کو نکل کھڑے ہوئے بیوی بھی ان کے ساتھ تھی لیکن کچھ دور جا کر وہ واپس اپنے قوم کی طرف پلٹ گئی اور قوم کے ساتھ جہنم رسید ہو گئی.
جیسے ہی اگلے روز صبح کا آغاز ہوا تو اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیل نے بستی کو اپنے پر سے اکھاڑ دیا اور پھر اپنے بازو پر رکھ کر آسمان پر چڑھ گئے یہاں تک کہ آسمان والوں نے بستی کے کتے کے بھونکنے اور مرغوں کے بولنے کی آوازیں سنیں پھر اس بستی کو زمین پر دے مارا جس کے بعد ان پر پتھروں کی بارش ہوئی ہر پتھر پر مرنے والوں کا نام لکھا ہوا تھا جب یہ پتھر ان کو لگتے تو سر پاش پاش ہو جاتے صبح سویرے شروع ہونے والا یہ عذاب اشراق تک پوری بستی کو نیست و نابود کر چکا تھا۔ قوم لوط کی ان خوبصورت بستیوں کو اللہ نے ایک انتہائی بدبودار اور سیاہ جھیل میں تبدیل کر دیا۔ جس کے پانی سے رہتی دنیا تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ سمندر کے اس خاص حصے میں کوئی جاندار مچھلی، مینڈک وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اسے ڈیڈ سی یعنی بحریہ مردار کہا جاتا ہے۔ جو اسرائیل اور اردن کے درمیان واقع ہے۔
ماہرین آثار نے دس سالوں کی تحقیق و جستجو کے بعد اس تباہ شدہ شہر کو دریافت کیا تھا۔ تحقیقات سے پتہ چلا تھا کہ اس شہر میں زندگی بالکل ختم ہو چکی ہے۔ اس شہر کے راستے اور کھنڈرات کو دیکھ کر آرکیولوجسٹ نے یہ اندازہ لگایا کہ جب یہ شہر تباہ ہوا تو اس وقت لوگ روزمرہ کے معمولات کے کاموں میں مشغول تھے۔ اور یہاں زندگی اچانک ختم ہو گئی تھی۔ اہل صدوم جنہیں پتھر بنا دیا گیا تھا ان کے بت ابھی تک بحر مردار کے پاس موجود ہیں۔ جو تا قیامت لوگوں لیے ایک عبرت ہے آج یورپی ممالک میں انسانی آزادی کے نام پر اس بدکاری کی اجازت دی جارہی ہے اور اس فحش عمل کو فخر سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم جنس پرستی بالکل فطرت کے خلاف ہے جس سے انسانی معاشرہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے روایتوں کے مطابق ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے شیطان سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بدترین عمل کیا ہے ابلیس بولا جب مرد مرد سے بدفعلی کرے اور عورت عورت سے خواہش پوری کرے حضرت عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص پر اللہ پاک کی **** ہو جو قوم لوط والا عمل کرے