فرعون اور ایک غلام عورت کا واقعہ

آج سے تقریبا تین ہزار سال قبل مصر پر ایک ظالم بادشاہ فرعون کی حکومت تھی۔اس نے خدائی کا دعوی بھی کر رکھا تھا فرعون نہایت ہی بدکردار اور ظالم ترین شخص تھا فرعون نے اپنی رعایا کو حکم دیا تھا کہ وہ اس کے آگے سجدہ کرے اور جو کوئی اسے سجدہ کرنے سے انکار کرتا وہ اس پر ظلم کرتا یہاں تک کہ اسے قتل کروا دیتا اس زمانے میں اللہ نے اپنے سچے پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام کو مابوز کیا جنہوں نے بنی اسرائیل کو اللہ کی طرف دعوت دی اور انہیں جھوٹے خدا کی عبادت سے باز آنے کی ہدایت کی لہذا خود فرعون کے محل میں موجود ایک خاتون نے موسی علیہ السلام کے دین کو قبول کر لیا۔ اور اس لاشریک اللہ پر ایمان لے آئی۔ اس خاتون کا نام مشاتہ تھا۔ جو فرعون کے محل میں خادمہ تھی۔ فرعون نے اسے اپنی بیٹی کی خدمت اور کام کاج کرنے پر معمور کیا تھا۔ ایک دن خادمہ فرعون کی بیٹی کے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی۔ کنگی کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں سے کنگھی گر پڑی۔ وہ اٹھانے لگی تو اس کی زبان سے بے ساختہ بسم اللہ نکل گیا۔ اس پر شہزادی نے کہا کہ تو نے آج عجیب کلمہ بولا رب تو میرا باپ فرعون ہی ہے تو پھر تم نے یہ کس کا نام لیا ہے اس نے جواب دیا فرعون رب نہیں بلکہ رب وہ اللہ ہے جو مجھے اور تجھے اور فرعون کو روزی دیتا ہے شہزادی نے کہا اچھا تو کیا تو میرے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا رب مانتی ہے اس نے جواب دیا ہاں میرا تیرا اور تیرے باپ سب کا رب اللہ ہی ہے شہزادی نے اس بات کی اطلاع اپنے باپ کو دے دی وہ نہایت ہی غضبناک ہوا اور اس نے اس باندی کو اپنے دربار میں بلایا جب وہ حاضر ہوئی تو فرعون نے پوچھا کیا تو نے میرے سوا کسی اور کو اپنا رب مان لیا ہے خادمہ نے صاف کہہ دیا کہ میں تمہیں خدا نہیں مان سکتی میرا اور تیرا رب اللہ ہی ہے جواب سن کر فرعون حیرت زدہ رہ گیا اسے اتنی استقامت اور جرات بھرے جواب کی امید نہ تھی فرعون نے اس عورت کو ایسی عبرت ناک سزا دینی چاہیے کہ اس طرح کی جرات دوبارہ کسی شخص کو نہ ہو۔ اسے پتا تھا کہ یہ عورت اپنے بچوں سے بےپنامحبت رکھتی ہے۔ لہذا فرعون نے خادمہ کے بچوں کو اس دربار میں لانے کا حکم دیا۔ پھر فرعون نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ایک بڑی دیگ میں تیل کھولایا جائے۔ جب یہ دیگ خوب تب گئی تو فرعون نے حکم دیا کہ اس عورت کے تمام بچوں کو ایک ایک کر کے اس کھولتے ہوئے تیل میں ڈال دیا جائے۔ فرعون کا حکم سنتے ہی اس عورت کے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا خادمہ نے نہایت ہی صبر اور ہمت سے کام لیا سپاہیوں نے اس خادمہ کے ایک بچے کو پکڑا اور اسے گھسیٹتے ہوئے لے جانے لگے وہ بچہ کبھی پکارتے ہوئے اپنی ماں سے مدد طلب کرتا کبھی سپاہیوں سے رحم کی بھیک مانگتا کبھی فرعون کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھتا خادمہ اپنے بچے کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی اور اسے الوداع کہہ رہی تھی چند لمحات میں بچے کو کھولتے ہوئے تیل میں پھیک دیا گیا اور کچھ ہی لمحے میں اس معصوم کی ہڈیاں تیل کے اوپر تیرنے لگیں فرعون نے خادمہ کی طرف دیکھا اور کہا اب اس خدا کو چھوڑ دو اور مجھے رب مان لو خاتون نے دلیرانہ نظروں سے فرعون کی طرف دیکھا اور اسے خدا تسلیم کرنے سے انکار کر دیا فرعون اس ثابت قدمی اور ہمت کو دیکھ کر دنگ رہ گیا تھوڑی دیر میں اس کے دوسرے بچوں کو بھی تیل میں ڈال کر ہلاک کر دیا گیا اب سپاہی اس خاتون کے سب سے چھوٹے بچے کی طرف بڑھے جو شیرخوار اور معصوم تھا جب سپاہیوں نے اس بچے کو چھینا تو بچے نے زور سے چیخ ماری ماں کا کلیجہ منہ کو آگیا اور اسے ضبط نہ رہا وہ زمین پر گر پڑی اور زار و قطار رونے لگی وہ عظمت والا لاشریک خدا اس عورت پر گزرنے والی قیامت سے خوب واقف تھا لہذا اللہ کی طرف سے ایک معجزہ ظاہر ہوا وہ شیرخوار بچہ جو ابھی بول بھی نہ سکتا تھا اس کی زبان میں بولنے کی قوت آگئی بھرے دربار میں بچہ بول اٹھا اے میری ماں تو حق پر ہے بے شک دنیا کی سزا آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت ہلکی ہے فرعون کے دربار میں موجود لوگ اس بچے کی آواز سن کر حیران رہ گئے لیکن ان کے دلوں پر لگے کفر کے تالے پھر بھی نہ کھلے کچھ ہی دیر میں اس بچے کو بھی دیگ میں ڈال دیا گیا اپنے تمام بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنےمارتا دیکھنے کے بعد اس خادمہ کا دل پھٹ پڑا تھا۔ اگر وہ چاہتی تو اپنے معصوم بچوں کو اس دردناک موت سے بچا سکتی تھی۔ اسے صرف ایک کلمہ کفر پڑھنا تھا۔ مگر یہ فقط جان بچانے کا ایک بہانہ ہوتا۔ مگر اسے یقین تھا کہ اس کے رب کے پاس اس کے لیے جو کچھ ہے وہ اس ختم ہو جانے والی دنیا سے کئی زیادہ ہے۔ اب سپاہیوں نے اس خادمہ کو پکڑا اور دھکیل کر اس دیگ کے پاس لے گئے۔ خادمہ نے فرعون کی طرف دیکھ کر کہا رکو میری ایک درخواست ہے یہ سن کر فرعون کو کچھ امید پیدا ہو گئی فرعون نے کہا ہاں بتاؤ کیا خواہش ہے عورت نے کہا تم میری اور میرے بچوں کی ہڈیاں ایک ساتھ جمع کر کے ایک جگہ دفن کر دینا پھر اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی اور اسے بھی دیگ میں پھینک دیا گیا اس واقعہ کے دو ہزار سال کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے آپ کو معراج کے سفر پر لے جایا گیا۔ معراج کی رات جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچے تو آپ کو مصر کی طرف سے ایک خوشبو آنے لگی۔ حضور نے جبرائیل سے پوچھا اے جبرائیل یہ کتنی اچھی خوشبو آ رہی ہے۔ یہ خوشبو کیسی ہے؟عرض کی یا رسول اللہ فرعون کی ایک باندھی تھی۔ جس نے ایمان کی خاطر اپنے اور اپنے بچوں کے جانوں کا سودا کیا تھا۔ جس دن انہیں دفن کیا گیا اس دن سے لے کر آج تک یہ خوشبو آ رہی ہے اور یہ قیامت تک آتی رہے گی