حضرت یونس علیہ السّلام کو مچھلی نے کیوں نگلا؟
1 min read

حضرت یونس علیہ السّلام کو مچھلی نے کیوں نگلا؟

دوستوں آج ہم ایسی ہستی کے متعلق جانیں گے جن کا واقعہ قرآن مجید میں یونس اور توریت میں جونا کے نام سے آیا ہے تاریخ میں اشوری قوم ایک عظیم اور طاقتور قوم کی حیثیت سے جانی جاتی ہے جس کا دارلحکومت اشور تھا اشوری دراصل بنی اسرائیل کی نسل سے تعلق رکھتے تھے جو بخت نصر کے حملے کے بعد غلام بنا کر بابل اور عراق لائے گئے تھے اس زمانے میں دریائے دجلہ کے کنارے نینوا نامی ایک چھوٹی سی بستی تھی اشور کے کسی بادشاہ نے ایک دیوتا کے نام پر نینوا میں ایک مندر بنوایا رفتہ رفتہ دوسرے بادشاہوں نے مندر اور عمارتیں بنانا شروع کر دیں اور ایک دور ایسا آیا کہ یہ چھوٹا سا علاقہ سلطنت عاشوریہ کے عظیم الشان دارل سلطنت میں تبدیل ہو گیا شہر کے بیچ و بیچ مندر اور شاہی محل تھے جہاں سے اشوریوں کا بادشاہ پورے سلطنت پر حکومت کرتا تھا اور اونچے تخت پر بیٹھ کر بازاروں گلیوں اور تفریح گاہوں کا نظارہ کیا کرتا تھا اشور کے مغربی علاقے میں لہلہاتے کھیت تھے پورا شہر درختوں اور سے سرسبز و شاداب تھا۔ اشوریا لوگ پتھر تراشنے کے فن میں بھی ماہر تھے۔ لہذا جگہ جگہ سنگ مرمن کے دیواروں پر انہوں نے اپنے دیوتاؤں کے نقش و نگار بنا رکھے تھے۔ مختصر یہ کہ نینوا تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے انتہائی ترقی یافتہ شہر تھا۔ اشودر دیوتا ان کا سب سے بڑا دیوتا تھا۔ نیز یہ لوگ بادشاہ کو بھی خدا کا درجہ دیا کرتے تھے۔ یہ لوگ بت پرستی اور کفر و شرک میں مبتلا تھے۔ اس وقت نینوا کی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ اور یہ سات سو قبل مسیح کا زمانہ تھا۔ اللہ نے اس زمانے میں اس قوم کی ہدایت کے لیے حضرت یونس علیہ السلام کو بھیجا۔ حضرت یونس کا پورا نام یونس ابن متعہ تھا۔ آپ حضرت ہود علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ جب کہ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یونس علیہ السلام کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا۔ آپ حضرت یوسف کے چھوٹے بھائی بن یامین کے بیٹے تھے۔ جب آپ کو نبوت ملی اس وقت آپ کی عمر اٹھائیس سال تھی۔ آپ پر ایک صحیفہ نازل ہوا جو توریت میں یونا کے نام سے موجود ہے حضرت یونس سب سے پہلے عاشوری بادشاہ کے پاس گئے اور اسے پیغام حق سنایا اسے خدائی کے جھوٹے دعوے سے توبہ کرنے کا حکم دیا اور ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا یونس علیہ السلام نے اس سے ان اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کرنے کا بھی حکم دیا جسے اس نے قید کر رکھا تھا نینوا کا بادشاہ آپ کی باتیں سن کر غضب ناک ہو گیا اور آپ کی جان کا دشمن بن گیا لہذا آپ علیہ السلام نینوا کے عوام کے پاس گئے اور انہیں توحید کی دعوت دی۔ انہیں شرک و بت پرستی اور دوسری برائیوں سے توبہ کرنے کو کہا۔ مگر اہل نینوا نے ایمان لانے سے انکار کر دیا اور اللہ کے رسول کو جھٹلا دیا۔ یونس علیہ السلام مسلسل اس کوشش میں رہے کہ ان کی قوم کے لوگ راہ راست پر آ جائیں۔ آپ نے انہیں بہت سمجھایا اور دعوت کے کام کو جاری رکھا۔ دیکھتے دیکھتے چالیس سال کا عرصہ گزر گیا۔ لیکن یہ قوم حضرت یونس کا انکار کرتی رہی اور شرک پر ڈٹے رہے نیز حضرت یونس کو دھمکیاں بھی دی گئیں کہ اگر آپ نے اشھدر دیوتا کے خلاف کچھ کہا تو وہ آپ کو قتل کر دیں گے آخر کار حضرت یونس اپنے قوم سے مایوس ہو گئے جب ان کی سرکشی اور نافرمانی انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ نے حضرت یونس کو حکم دیا کہ لوگوں کو آگاہ کر دو کہ تین دن کے اندر ان پر عذاب آنے والا ہے لہذا آپ نے اہل نینوا کے سامنے اعلان کیا کہ اگر تم نے تین دنوں کے اندر بت پرستی اور شرک سے توبہ نہ کی تو تم پر اللہ کا قہر نازل ہو گا اور پورا شہر تباہ و برباد ہو جائے گا لوگوں نے آپ کا مذاق اڑایا اور جواب میں کہا ہم تمہارے رب کی طرف سے عذاب کے منتظر رہیں گے آپ کی قوم نے آپس میں مشورہ کیا تو اس بات پر سب کا اتفاق ہوا کہ یونس کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا گیا لہذا ان کی بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے مشورہ یہ بھی طے ہوا کہ دیکھا جائے کہ اگر یونس علیہ السلام رات بستی کے اندر اپنے گھر میں مقیم رہتے ہیں تو سمجھ لو کہ کچھ نہیں ہوگا اور اگر وہ یہاں سے کہیں اور چلے جاتے ہیں تو یقین کر لو کہ صبح عذاب ضرور آئے گا حضرت یونس علیہ السلام رات کو اس بستی سے نکل گئے صبح ہوئی تو عذاب الہی کا ایک سیاہ دھواں بادل کی شکل میں بستی والوں کے سروں پر منڈلانے لگا۔ جب وہ ان کے قریب ہونے لگا تو ان لوگوں کو یقین ہو گیا کہ اب وہ سب ہلاک ہونے والے ہیں۔ دراصل حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے تھے۔ مگر انہیں وہاں سے نکلنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ وہ عذاب کی اطلاع دینے کے بعد اللہ کی اجازت کے بغیر اپنا علاقہ چھوڑ گئے تھے۔ آثار عذاب دیکھ کر جب عاشوریوں نے توبہ و استغفار کی تو اللہ نے انہیں معاف کر دیا۔ اللہ تعالی کسی قوم کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک وہ اپنی حجت پوری نہیں کر لیتا پس جب یونس علیہ السلام نے اس قوم میں مہلت کے آخری لمحے تک نصیحت کا سلسلہ جاری نہیں رکھا اور اللہ کے مقرر کردہ وقت سے پہلے وہ خود ہی ہجرت کر گئے تو اللہ کے انصاف نے اس قوم کو عذاب دینا گوارا نہ کیا اور انہیں معاف کر دیا گیا جب حضرت یونس علیہ السلام فرات کے کنارے پہنچے تو ایک کشتی کو مسافروں سے بھرا ہوا پایا۔ حضرت یونس کشتی میں سوار ہوگئے اور کشتی نے لنگر اٹھایا۔ پورے دن میں کشتی سمندر میں سکون سے چلتی رہی۔ اچانک اونچی اونچی لہریں اٹھنے لگیں۔ لوگوں نے اپنا سازوسامان سمندر میں پھینک دیا کہ کشتی کا بوجھ کم ہو جائے لیکن کشتی کا بوجھ پھر بھی کم نہ ہوا جب کشتی ڈگمگانے لگی تو کشتی کے غرق ہونے کا یقین ہونے لگا اہل کشتی نے اپنے عقیدے کے مطابق کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کشتی میں کوئی غلام اپنے آقا سے بھاگا ہوا ہے جب تک اس کو اس کشتی سے الگ نہ کیا جائے گا نجات مشکل ہے یونس علیہ السلام نے سنا تو ان کو تنبیہ ہوا کہ اللہ کو اس جگہ سے وحی کا انتظار کیے بغیر اس طرح چلے آنا پسند نہ آیا اور یہ میری آزمائش کے آثار ہیں یہ سوچ کر انہوں نے اہل کشتی سے فرمایا کہ میں ہی وہ غلام ہوں جو اپنے آقا سے بھاگا ہوا ہوں لہذا تین مرتبہ قرعہ اندازی کی گئی اور تینوں مرتبہ حضرت یونس کا نام نکلا تب مجبور ہو کر انہوں نے حضرت یونس کو دریا میں ڈال دیا اس وقت اللہ نے ایک بڑی مچھلی کو حکم دیا کہ انہیں نگل لو یہ تمہاری غذا نہیں ہے اس لیے ان کے جسم پر کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے مچھلی نے حضرت یونس کو اپنے پیٹ میں نگل لیا یونس علیہ السلام نے جب مچھلی کے پیٹ میں خود کو زندہ پایا تو بارگاہ الہی میں اپنی ندامت کا اظہار کیا کہ میں وحی الہی کا انتظار کیے بغیر اور اللہ سے اجازت لیے بغیر امت سے ناراض ہو کر ننوا سے نگل آیا حضرت یونس نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ کو پکارا ان پر تین اندھیرے اکٹھے ہو گئے تھے رات کا اندھیرا مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا اور سمندر کا اندھیرا آپ نے ان اندھیروں میں یہ کلمات کہے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو یکتا ہے میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں بے شک میں اپنے نفس پر خود ہی ظلم کرنے والا ہوں روایتوں کے مطابق اگر حضرت یونس یہ تسبیح نہ کہتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب یونس نے یہ دعا کی تو یہ کلمات عرش کے گرد گھومنے لگی فرشتے کہنے لگے کہ یہ بہت دور دراز جگہ سے آواز آ رہی ہے لیکن کان اس سے پہلے اس سے آشنا ضرور ہیں اور آواز بہت ہی کمزور ہے اللہ نے حضرت یونس کی درد بھری آواز کو سنا تو فرمایا کیا تم اس آواز کو نہیں پہچانتے انہوں نے کہا نہیں فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے فرشتے نے کہا یہ وہی یونس ہے جس کی پاک عمل قبول شدہ ہر روز تیری طرف چڑھتے تھے۔ اے اللہ مصیبت کے وقت اس پر رحم کر۔ تو اس وقت اللہ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ کو بغیر کسی تکلیف کے سمندر کے کنارے اگل دے۔ روایتوں کے مطابق یونس علیہ السلام چالیس دن اس مچھلی کے پیٹ میں رہے اور اس کے بعد اللہ کے حکم سے اس مچھلی نے آپ کو سمندر کے کنارے اگل دیا۔ مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے آپ کا جسم ایسا ہو گیا تھا جیسے کہ پرندہ کا پیدا شدہ بچہ جس کا جسم نرم ہوتا ہے اور جسم پر بال تک نہیں تھے۔ غرض حضرت یونس بہت ہی کمزور اور ناتواں حالت میں خشکی پر ڈال دیے گئے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے سمندر کے کنارے پر ایک بیلدار درخت اگایا۔ روایتوں کے مطابق وہ کدو کا پودا تھا۔ جس کے ذریعے حضرت یونس علیہ السلام پر سایہ ہو گیا۔ اس کے علاوہ اللہ نے ایک جنگلی بکری بھیج دی۔ جو زمین کی گھاس اور جڑی بوٹیاں کھاتی تھی اور صبح و شام آپ کو دودھ پلاتی تھی۔ یہاں تک کہ آپ تندرست ہوگئے۔ حضرت یونس درخت کے اس سائے میں جھونپڑی بنا کر رہنے لگے۔ یونس علیہ السلام کی قوم انہیں تلاش کرتی ہوئی ایک دن اس ساحل کے کنارے پہنچ گئی اور انہوں نے آپ کو دیکھ لیا۔ انہوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کر لی اور ساتھ ہی اللہ سے توبہ و استغفار کرنے لگے۔ یونس علیہ السلام دوبارہ چلے گئے اور وہاں رہ کر اپنی قوم کی رہنمائی فرمائی۔