حضرت نوح علیہ السلام کی اپنی قوم کو بد دعا
1 min read

حضرت نوح علیہ السلام کی اپنی قوم کو بد دعا

حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں آنے کے بعد ان کی اولاد دنیا میں خوب پھلی پھولی۔ لیکن ایک مدت گزر جانے کے بعد وہ لوگ خدا کو بھول چکے تھے۔ اور ایک خدا کی بجائے انہوں نے مٹی اور پتھر کے کئی خدا بنا لیے تھے۔ نہ صرف ان کی عبادت گاہیں بتوں سے بھری پڑی تھی۔ بلکہ ہر گھر میں بت رکھے ہوئے تھے۔

جن کی وہ پوجا کیا کرتے اور ان سے مرادیں مانگا کرتے تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالی کے احسانات جتلا کر سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کی اور اس بری راز سے منع فرمایا۔ جس پر چل رہے تھے اور ان کو یہ بھی بتا دیا کہ اگر تم بتوں کو چھوڑ کر ایک خدا کی طرف رجوع نہ ہوئے۔ تو تم پر عذاب نازل ہونے کا خطرہ ہے اور کہا کہ مجھے اللہ تعالی نے تمہارے طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔

اس پر ان لوگوں نے حضرت نوح علیہ السلام کا مسخر اور کہا بھلا یہ بتاؤ کہ تم نبی کیسے بن گئے۔ تم تو ہمارے جیسے گوشت پوست کے بنے ہوئے ہو اور ہم میں سے ہی پیدا ہوئے۔ تم میں ایسی کونسی چیز ہے۔ جس سے ہم تمہیں نبی کہیں اور اگر خدا کو نبی ہی بھیجنا تھا۔ تو وہ کسی فرشتے کو نبی بنا کر بھیج دیتا۔

حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کے ثنا جتلائے اور کہا تم کو چاہیے کہ ان بیکار بتوں کی پرستش چھوڑ کر اللہ کی عبادت کرو اور میں اس کی تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ تمہاری ہی بھلائی کے لیے تم کو نصیحت کرتا ہوں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کوئی ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم میں واعظ و تبلیغ کی اور کوشش کی کہ وہ خدائے واحد کے سچے پرستار بن جائیں۔

مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ حضرت نوح علیہ السلام فرماتے تو ان کا مزاخ اڑاتے اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے۔ تاکہ ان کی آواز کانوں میں نہ پہنچ جائے۔ صرف چند لوگ تھے جو آپ پر ایمان لائے۔ قوم کی یہ سرکشی اور نافرمانی دیکھ کر حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا کہ اے اللہ میں تو اس قوم سے تنگ آ گیا ہوں۔ اب تو ہی ان سے بدلہ لے۔

خداوند تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ ایک کشتی بناؤ اور یہ بھی حکم دے دیا کہ دیکھنا اب کسی کی سفارش نہ کرنا۔ اب ان پر ضرور عذاب نازل ہو کے رہے گا۔ حضرت نوح علیہ السلام خدا کے حکم کے مطابق کشتی بنانے میں لگ گئے۔ جب کشتی بن کر تیار ہو گئی۔ تو خدا نے حکم دیا کہ اپنے اہل اور ان لوگوں کو کشتی پر سوار کر لو جو مجھ پر ایمان لے آئے ہیں۔

اور ہر جانور کا ایک ایک جوڑا بھی کشتی میں رکھ لو۔ جب سب لوگ کشتی میں بیٹھ گئے۔ تو خدا کے حکم سے زمین پر موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ زمین پر پانی بڑھنے لگا اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی پانی میں تیرنے لگی۔ پانی بڑھا تو حضرت نوح علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کا بیٹا پانی میں ڈوبنے لگا۔

آپ نے اسے آواز دی کہ اب بھی آ جاؤ تاکہ خدا کے عذاب سے بچ سکو۔ مگر اس نے جواب دیا تم جاؤ میں کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنی جان بچا لوں گا۔ پانی تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ دنیا کے نافرمان اور سرکش لوگ اس سیلاب میں فنا کے گھاٹ اتر گئے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑی کی چوٹی پر جا کر ٹھہر گئی۔

اب خدا کے حکم سے سیلاب تھم گیا اور زمین نے سارا پانی اپنے اندر جذب کر لیا۔ اب خدا نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ کشتی سے اتر جاؤ تجھ پر اور وہ لوگ جو تجھ پر ایمان لاۓ۔ ان پر میری رحمتیں برکتیں نازل ہوں گی۔ کیونکہ اس طوفان میں دنیا کے تمام لوگ ہی فنا ہو گئے تھے۔ صرف چند لوگ ہی زندہ بچے تھے۔ اس لیے حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ انہی کی اولاد اس وقت دنیا میں آباد ہیں۔