حضرت موسی علیہ السلام کی پیدائش کا عجب واقعہ

اللہ تعالی سورۃ القصص آیت چار میں فرماتے ہیں.یقینا فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی. اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا. اور ان کے ایک فرقے کو کمزور کر رکھا تھا. اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا. اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا. بلا شک و شبہ وہ تھا ہی فساد کرنے والوں میں سے. اس نے لوگوں کے گروہ اور جماعتیں بنا رکھی تھی.فرعون کے زمانے بنی اسرائیل سب سے حقیر اور کم درجہ قوم تھی۔ فرعون نے انہیں حد درجہ ذلیل اور بے عزت بنا رکھا تھا۔ سبھی کو معاشرے میں نچلے طبقے میں شمار کیا جاتا تھا۔ جب کہ مصر میں یہی لوگ شاہانہ زندگی گزارا کرتے تھے۔ فرعون نے اعلان کرا رکھا تھا کہ بنی اسرائیل سب کے سب غلام ہیں۔ وہ ان سے زر خرید غلاموں کی طرح مزدوری لیا کرتا تھا۔ ان کی عورتوں سے لونڈیوں، باندیوں جیسا برتاؤ کیا جاتا تھا۔ وہ جو چاہتا ان سے کرتا تھا۔ اس نے یہ حکم اپنی رعایا میں عام دے رکھا تھا۔ مصر کے باشندے اعلی درجے کے لوگ سمجھے جاتے تھے۔ وہ کفتی کہلاتے تھے۔ فرعون نے بنی اسرائیل کو غلام اور محکوم بنا رکھا تھا۔ اور انہیں ہر طرح سے کمزور کر دیا تھا۔ اللہ تعالی سورۃ القصص آیت چار میں فرماتے ہیں۔ اور اس نے ان میں سے ایک فرقے کو کمزور کر رکھا تھا۔ بنی اسرائیل اس ذلت سے نجات پانے کا انتظار کر رہے تھے۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں ایک بشارت ملی ہوئی تھی۔ اس کے مطابق ان کا نظریہ تھا۔ کہ فرعون کے گھر سے ایک بچہ نکلے گا جو انہیں نجات دلائے گا۔ اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہ بشارت انہیں اس طرح ملی تھی کہ خود فرعون نے خواب دیکھا تھا۔ کہ بیت المقدس سے آگ نکل کر مصر کی جانب بڑھتی چلی آ رہی ہے۔ وہ آگ مصر میں تمام لوگوں کو جلائے ڈالتی ہے مگر اس آگ سے بنی اسرائیل کے گھر محفوظ رہتے ہیں فرعون نے اس خواب کی تعبیر کاہنوں سے پوچھی وہ کاہن اس کے نزدیک عالم تھے انہوں نے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ ایسا پیدا ہونے والا ہے جس کی وجہ سے مصریوں کی ہلاکت ہوگی یہ تعبیر سن کر فرعون ڈر گیا تب اس نے ایک خوفناک حکم جاری کیا بنی اسرائیل میں جو بچہ پیدا ہو اسے قتل کر دیا جائے اللہ کی قدرت دیکھیے کہ ہارون علیہ السلام اس سے پہلے پیدا ہو چکے تھے اور موسی علیہ السلام کی والدہ امید سے تھی فرعون نے اپنا حکم یوں جاری کیا تھا کہ اگر ان کے ہاں بیٹے پیدا ہوں تو انہیں قتل کر دو بیٹیاں پیدا ہوں تو انہیں زندہ چھوڑ دیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا جانے لگا ہر نومولود بچے کو قتل کیا جانے لگا بچیوں کو چھوڑ دیا جاتا۔ اس کا طریقہ انہوں نے یہ اختیار کیا کہ ہر حاملہ خاتون کی نگرانی شروع کر دی۔ دایا عورتوں کے ذمے یہ ڈیوٹی لگائی کہ حاملہ مستورات کی اطلاع دیں گی اور جو دایا اطلاع نہ دیتی اسے بھی قتل کر دیا جاتا۔ اس طرح فرعون اور اس کے وزیروں کو ہر نومولود سے باخبر رکھا جاتا تھا۔ ان دنوں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی والدہ اپنے حمل کے ابتدائی دنوں میں تھیں۔ انہوں نے اس کو چھپائے رکھا.اور دایاں کا کام کرنے والی عورتوں سے بھی خود کو چھپائے رکھا. یہاں تک کہ درد زہ کا وقت آ پہنچا. اور انہوں نے بچے کو جنم دیا. اس بارے میں سوائے قریبی لوگوں کے کوئی نہیں جانتا تھا. بچے کی پیدائش کے بعد وہ فکر مند رہنے لگی. حمل کے دنوں میں تو انہوں نے خود کو چھپا لیا تھا. اب بچے کو کیسے چھپائیں. پھر بھی اپنی پوری کوشش کرتی رہیں.
یہاں تک کہ ان کے پاس اللہ کا حکم آگیا. یہ حکم اللہ نے ان کے دل میں ڈالا تھا. یعنی القاء کیا گیا تھا. یہ وہ وحی نہیں تھی جو پیغمبروں پر آتی ہے. سورۃ القصص آیت سات میں ہے.اور ہم نے موسى کی ماں کو وہی کی کے اسے دودھ پلاتی رہ اور جب تجھے اس کی نصبت کی خوف معلوم ہو تو اسے دریا میں بھا دینا کوئی رنج گم نہ کرنا اور یقینن ہم اسے تیری طرف لوٹنے والے ہیں اور اسے اپنے پیغمبروں میں بنانے والے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ جب خطرات بڑھ جائیں تو اسے دریا میں ڈال دیں۔اور پھر واقعی تلاش شروع ہو گئی بنی اسرائیل پر سختی کی گئی موسی علیہ السلام کی ماں نے اللہ کے حکم کے مطابق بچے کو صندوق میں رکھا اور دریا میں چھوڑ دیا ساتھ ہی موسی علیہ السلام کی بہن سے کہا تو بھی اس کے پیچھے پیچھے چلتی جا چنانچہ وہ دریائے نیل کی موجوں میں چلے اور ان کی بہن کنارے کنارے چلی اپنے بھائی کی نگرانی کرتی جا رہی ہے کہ دریا میں ڈال کے بعد کیا بنتا ہے? اللہ تعالی سورۃ القصص آیت گیارہ میں فرماتے ہیں.موسی کی والدہ نے ان کی بہن سے کہا تو اس کے پیچھے پیچھے جا. تو وہ اسے دور ہی دور سے دیکھتی رہی اور فرعونیوں کو اس کا علم بھی نہ ہوا.صندوق بہتا ہوا کے محلات کے قریب آن ٹھہرا. محلات دریائے نیل کے کنارے تھے. اللہ تعالی سورۃ القصص میں فرماتے ہیں. آخر فرعون کے آدمیوں نے صندوق اٹھا لیا. آخر کار یہی بچہ ان کا دشمن ہوا. اور ان کے رنج کا باعث بنا. اب وہ اس کی بھلائی چاہ رہے ہیں. لیکن وہی فرعونیوں کے لیے وبال جان بننے والا تھا. اللہ سورۃ القصص آیت آٹھ میں فرماتے ہیں.کچھ شک نہیں کہ فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر تھے ہی خطا کار فرعون کی بیوی نے فورا پہچان لیا کہ یہ بچہ بنی اسرائیل میں سے ہے۔ چنانچہ فرعون کی بیوی نے کہا یہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اسے قتل نہ کرو بہت ممکن ہے یہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنا لیں۔ اور یہ لوگ شعور ہی نہیں رکھتے تھے۔ مطلب یہ کہ اس پورے معاملے میں اللہ تعالی کی تدبیر سے انہیں آگاہی نہیں تھی۔ اس پر فرعون نے کہا یہ صرف تیری آنکھ کی ٹھنڈک ہے میری نہیں۔ میں نہیں چاہتا بنی اسرائیل کا کوئی بچہ میری نگرانی میں پلے لہذا یہ صرف تیری ہی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر فرعون یہ بات کہہ دیتا کہ یہ میری بھی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے تو اللہ تعالی اسے ہدایت دے دیتا۔ لیکن اس نے یوں کہا یہ صرف تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے میری نہیں۔ اور پھر ہوا بھی یہی۔ موسی علیہ السلام آسیہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن گئے۔ فرعون کی آنکھوں کی ٹھنڈک نہ بنے۔ اللہ تعالی سورۃ القصص آیت دس میں فرماتے ہیں.اور موسی کی والدہ کا دل بے قرار ہو گیا. یعنی اس کا دل موسی علیہ السلام کی یاد کے علاوہ دنیا کی ہر چیز سے خالی ہو گیا. ماں کی محبت اور ماں کے دل کا حال ذرا دیکھیے.مصیبت میں اس پر کیا گزرتی ہے. وہ مہربانی جو ماں کے دل میں ہوتی ہے. وہ محبت جو صرف اسی دل کا خاصہ ہے. ہم مردوں کی جمع اس کیفیت کو نہیں جانتی. جو مصیبت کے وقت ماں کے دل پر گزرتی ہے. چنانچہ اللہ تعالی فرما رہے ہیں اور موسی کی والدہ کا دل بے قرار ہو گیا. یعنی موسی علیہ السلام کی محبت کے سوا اس دل میں اور کچھ نہ رہا. اللہ تعالیٰ سورۃ القصص آیت دس میں فرماتے ہیں.قریب تھیں کہ اس واقعے کو بالکل ظاہر کر دیتی اگر ہم ان کے دل کو ڈھارس نہ دے دیتے یہ اس لیے کہ وہ یقین کرنے والوں میں رہے اب دیکھیے اللہ تعالی کے کام ان کے نور چشم کو کس طرح ان کی طرف واپس لوٹایا بچہ جب محل میں پہنچا تو اس نے دودھ کے لیے رونا شروع کر دیا اس کے پاس دودھ پلانے والیاں لائی گئیں لیکن بچے نے کسی عورت کا دودھ نہ پیا آخر وہ بچے کو اٹھا کر باہر لائے اللہ آیت میں فرماتے ہیں اور ان کے پہنچنے سے پہلے ہم نے موسی پر داعیوں کا دودھ حرام کر دیا تھا۔ جو عورت بھی آپ کو دودھ پلانے کی کوشش کرتی ناکام ہو جاتی۔ اب ظاہر ہے یہ رکاوٹ تو اللہ تعالی کی طرف سے تھی۔ کوئی دودھ پلانے میں کامیاب ہو بھی کیسے سکتی تھی۔ ادھر موسی علیہ السلام کی بہن دور کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ سورۃ القصص آیت بارہ میں ہے۔ یہ کہنے لگی کیا میں تمہیں ایسا گھرانہ نہ بتاؤں جو اس بچے کی تمہارے لیے پرورش کرے اور ہوں بھی وہ اس بچے کے خیر خواہ انہوں نے پوچھا اے بچی تو کیسے جانتی ہے کہ وہ اس بچے کی خیر خواہی کریں گی بچی نے جواب دیا اس لیے کہ وہ ایک غریب گھرانہ ہے جب انہیں معلوم ہوگا کہ یہ بچہ فرعون کے گھر سے آیا ہے تو انہیں انعام و اکرام ملنے کی امید رہے گی اس گھر میں نیک سیرت خاتون ہے وہ اس بچے کو بخوشی دودھ پلانا قبول کرے گی انہوں نے کہا چلو ٹھیک ہے چنانچہ آپ کی بہن انہیں گھر لے آئی والدہ محترمہ نے بچے کو دودھ پلایا تو آپ نے فورا دودھ پینا شروع کر دیا سیدہ آسیہ نے ان کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ محل میں آ جائے اور جب تک بچہ دودھ پیتا رہے وہ اس کے پاس محل ہی میں رہے لیکن موسی علیہ السلام کی ماں نے انکار کر دیا انہوں نے کہا میرے اہل و عیال ہیں میرے خاوند بھی لہذا ان کے ہوتے ہوئے میں گھر نہیں چھوڑ سکتی۔ اب چونکہ بچے نے کسی اور کا دودھ پینا قبول نہیں کیا تھا اس لیے وہ خود بچے کو لے کر آتے تھے۔ اس طرح موسی علیہ السلام کی والدہ کا بے حد احترام ہونے لگا۔ فرعون کے ہر کارے تحفے تحائف ان کے گھر لانے لگے۔ اللہ تعالی آیت تیرہ میں فرماتے ہیں۔ پس ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف واپس پہنچایا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور آزردہ خاطر نہ ہو اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے اس طرح موسی علیہ السلام شاہی محل میں پلنے بڑھنے لگے یہاں تک کہ اٹھارہ سال کے خوب روح نوجوان ہو گئے اللہ تعالی آیت چودہ میں فرماتے ہیں اور جب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہو گئے تو ہم نے انہیں علم و حکمت عطا فرمایا نیکی کرنے والوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں