حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی کا انصاف

دوستوں سیدنا عمیر بن سعد الانصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں خمس کر گورنر بنا کر بھیجا ایک سال گزر گیا لیکن ان کی کوئی خبر نہ آئی چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کاتب کو بلایا اور فرمایا عمیر رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھو کہ جیسے ہی تمہیں میرا یہ خط ملے فورا میرے پاس چلے آؤ مال غنیمت و خراج وغیرہ بھی ساتھ لے کے آنا جب حضرت سیدنا عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کو امیر المومنین رضی اللہ عنہ کا پیغام ملا تو آپ نے اپنا تھیلا اٹھایا اس میں زاد راہ اور ایک پیالہ رکھا پانی کا برتن لیا پھر اپنی لاٹھی اٹھا کر پیدل ہی سفر کرتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچ گئے آپ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوئے کہ آپ کا چہرہ گرد آلود اور رنگ متغیر ہو چکا تھا اور طویل سفر کے آثار چہرے پر ظاہر تھے آپ رضی اللہ عنہ نے حاضر ہوتے ہی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اے امیر المومنین کہا حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سلام کا جواب دیا اور پوچھا اے عمیر رضی اللہ عنہ تمہارا کیا حال ہے حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ نے عرض کی میرا وہی حال ہے جو آپ رضی اللہ عنہ دیکھ رہے ہیں کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ میں صحیح و ظالم ہوں اور دنیا میرے ساتھ ہے جسے میں کھینچ رہا ہوں حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تم کیا کچھ لے کر آئے ہو آپ رضی اللہ عنہ کا گمان تھا کہ شاید حضرت عمیر رضی اللہ عنہ مال غنیمت وغیرہ لائے ہوں گے حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے عرض کی میرے پاس میرا تھیلا ہے جس میں اپنا زاد راہ رکھتا ہوں ایک پیالہ ہے جس میں کھانا کھاتا ہوں اور اسی سے اپنا سر اور کپڑے وغیرہ دھوتا ہوں ایک پانی کا برتن ہے جس میں پانی پیتا ہوں اور وضو وغیرہ کرتا ہوں اور ایک لاٹھی ہے جس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اگر کوئی دشمن آ جائے تو اسی لاٹھی سے اس کا مقابلہ کرتا ہوں خدا کی قسم اس کے علاوہ میرے پاس دنیاوی مال و متاع نہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا اے عمیر رضی اللہ عنہ کیا تم پیدل آئے ہو انہوں نے عرض کی جی ہاں آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا مسلمانوں میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو تمہیں سواری دیتا تاکہ تم اس پر سوار ہو کر آتے آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کی نہیں نہیں ان میں سے کسی نے مجھے کہا نہ ہی میں نے کسی سے سوال کیا حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ کتنے لوگ ہیں جن کے پاس سے تم آئے ہو حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا اے عمر رضی اللہ عنہ انہیں برا نہ کہے میں ان لوگوں کو صبح کی نماز پڑھتے چھوڑ کر آیا ہوں وہ اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تم جس مال کے وصولی کے لیے بھیجے گئے تھے وہ کہاں ہے اور تم نے وہاں رہ کر کیا کیا کام سرانجام دیے حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ نے عرض کی آپ سے کیا پوچھنا چاہتے ہیں حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا سبحان اللہ میں جو پوچھنا چاہتا ہوں وہ بالکل واضح ہے حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ نے عرض کی اللہ کی قسم اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ میری نہ بتانے سے آپ کو غم ہوگا تو میں ہرگز آپ کو نہ بتاتا سنیے جب آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے بھیجا تھا تو وہاں پہنچ کر وہاں کے تمام نیک لوگوں کو جمع کیا اور انہیں مال جمع کرنے کے لیے کہا جب انہوں نے مال غنیمت اور جزیہ وغیرہ جمع کر لیا تو میں نے اس مال کو اس کے مصارف یعنی خرچ کرنے کی جگہوں میں خرچ کر دیا اگر اس میں سے کچھ بچتا تو میں یہاں ضرور لے کر آتا حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا تم یہاں کچھ بھی نہیں لے کر آئے انہوں نے عرض کی نہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کو دوبارہ وہاں کا حکیم بنا کر بھیجا جاتا ہے اس کے لیے عہد لکھو حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا تو عرض کی اب میں یہ کام نہ تو آپ کے لیے کروں گا نہ آپ کے بعد کسی اور کے لیے کیونکہ اس کام میں میں اپنے آپ کو گناہوں سے نہیں بچا سکتا بلکہ مجھ سے خطا بھی سرزد ہوئی ہے میں نے ایک نصرانی کو یہ کہہ دیا تھا کہ اللہ تجھے رسوا کرے حالانکہ وہ ہمیں جزیہ دیا کرتا تھا اور ضمنی کافر کو اذیت دینا منع ہے لہذا اب میں یہ عہدہ قبول نہیں کروں گا پھر انہوں نے حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اجازت چاہی اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے ان کا گھر مدینہ منورہ سے کافی دور تھا وہ پیدل ہی گھر کی طرف چل دیے جب وہ چلے گئے تو حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ان کے بارے میں تحقیق کرنی چاہیے لہذا آپ اللہ عنہ نے حارث نامی ایک شخص کو بلایا اور اسے ایک سو دینار دے کر فرمایا تم حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور وہاں مہمان بن کر رہو اگر وہاں دولت کے آثار دیکھو تو واپس آ جانا اور انہیں تنگ دستی اور فقر و فاقہ کی حالت میں پاؤ تو یہ دینار انہیں دے دینا جب وہ شخص وہاں پہنچا تو دیکھا کہ حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ ایک دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں اور اپنے سے گرد و غبار وغیرہ صاف کر رہے ہیں وہ ان کے پاس گئے اور سلام عرض کیا آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اور فرمایا اللہ آپ پر رحم فرمائے آپ ہمارے ہاں مہمان ہو جائیے لہذا وہ ان کے ہاں بطور مہمان ٹھہر گیا پھر حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں اس نے کہا میں مدینہ منورہ سے آیا ہوں حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا امیر کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو جواب دیا اچھی حالت میں پھر آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجرموں کو سزا نہیں دیتے اس نے کہا کیوں نہیں وہ حدود قائم فرماتے ہیں اور انہوں نے تو اپنے بیٹے پر بھی کسی خطا پر حد قائم فرمائی یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئے حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا اے اللہ تو حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو عزت عطا فرما ان کی مدد فرما بے شک وہ تجھ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں وہ شخص حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاں تین دن مہمان رہا آپ رضی اللہ عنہ کے ہاں جو کی ایک روٹی ہوتی جو اسے کھلا دیتے اور خود بھوکے رہتے یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ مشقت میں پڑ گئے اور آپ رضی اللہ عنہ کو بہت زیادہ پریشانی ہونے لگی چنانچہ رضی اللہ عنہ نے اس سے معذرت کرتے ہوئے فرمایا ہمیں بہت زیادہ پریشانی کا سامنا ہے اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہم سے رخصت ہو جائیں جب اس نے یہ سنا تو دینار نکال کر آپ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں پیش کیے اور کہا یہ امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کے لیے بھیجے ہیں انہیں قبول فرمائیے اور اپنی ضروریات میں استعمال کیجیے جب آپ رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو ایک زور دار چیخ ماری اور فرمایا مجھے ان کی کچھ حاجت نہیں انہیں واپس لے جاؤ یہ دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی آپ انہیں قبول کر لیجیے اگر ان کی ضرورت محسوس ہو تو استعمال کر لینا ورنہ حاجت مندوں اور فقراء میں تقسیم فرما دینا حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس میں انہیں رکھ سکوں یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ نے اپنے کرتے کا نیچے والا حصہ پھاڑ کر دیا اور کہا اس میں آپ رضی اللہ عنہ نے وہ دینار لے کر اس کپڑے میں رکھ لیے پھر گھر سے باہر تشریف لے گئے اور تمام دینار شہدا کے اقرباء اور فقراء و مساکین میں تقسیم فرما دیے جب واپس گھر آئے تو آپ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک دینار بھی نہ تھا دینار لانے والے کا گمان تھا کہ شاید مجھے بھی کچھ حصہ ملے گا لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے سب دینار فقراء میں تقسیم فرما دیے تھے پھر حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا امیر المومنین رضی اللہ عنہ کو میرا سلام عرض کرنا پھر وہ شخص وہاں سے روانہ ہو کر حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا تم نے وہاں کیا دیکھا عرض کی بہت تنگ دستی اور فکر و فاقہ کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں پھر آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا انہوں نے دیناروں کا کیا کیا عرض کی مجھے معلوم نہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف خط بھیجا اور اس میں لکھا جیسے ہی ہمارا خط پہنچے فورا ہمارے پاس چلے آؤ لہذا خط پا کر حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا آپ نے دینار کہاں خرچ کیے بولے میں نے جہاں چاہا انہیں خرچ کیا آپ ان کے متعلق کیوں پوچھ رہے ہیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں مجھے بتاؤ تم نے وہ دینار کہاں خرچ کیے حضرت سیدنا رضی اللہ عنہ نے عرض کی میں نے وہ دینار اپنی آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیے ہیں حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا اللہ آپ پر رحم فرمائے آپ رضی اللہ عنہ کو خوش و خرم رکھے اسی طرح حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آپ کو دعائیں دیتے رہے پھر حکم فرمایا انہیں چھ من گندم اور کچھ کپڑے دے دیے جائیں آپ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا مجھے گندم کی کوئی حاجت نہیں میں گھر میں دو سا گندم چھوڑ کر آیا ہوں جب وہ ختم ہو جائے گی تو اللہ ہمیں اور عطا فرمائے گا بس آپ رضی اللہ عنہ نے گندم قبول نہ فرمائی اور کپڑے بھی یہ کہہ کر لیے کہ فلاں غریب عورت کو ان کی حاجت ہے میں یہ کپڑے اسے دے دوں گا پھر آپ رضی اللہ عنہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے اور کچھ عرصہ بعد آپ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا جب حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو ان کے وصال کی خبر ملی تو آپ رضی اللہ عنہ کو بہت صدمہ ہوا اور آپ رضی اللہ عنہ ان کی تدفین کے لیے پیدل ہی جنت البقیع کی طرف چل پڑے بہت سے لوگ بھی آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے جب حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ کو دفن کر دیا گیا تو حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کہا تم اپنی اپنی خواہش کا اظہار کرو ان میں سے ایک شخص بولا اے امیر المومنین میری یہ خواہش ہے کہ میرے پاس بہت سا مال ہو اور جس کے ذریعے غلاموں کو آزاد کرواؤں تاکہ اللہ کی رضا نصیب ہوایک اور شخص نے کہا میری خواہش ہے کہ اللہ مجھے بہت زیادہ قوت عطا فرمائے تاکہ میں بیر زم زم سے پانی نکال کر حجاج کو سیراب کروں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا میری تو یہ خواہش ہے کہ مجھے عمیر سعد رضی اللہ عنہ جیسے لوگ مل جائیں.جنہیں میں گورنر بناؤں اور مسلمانوں کے کاموں کا ولی بناؤں.