حضرت علیؓ کا دل دہلا دینے والا فیصلہ
1 min read

حضرت علیؓ کا دل دہلا دینے والا فیصلہ

عاصم بن زمرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک جوان لڑکا مدینے میں کھڑا رو رہا تھا اور فریاد کرتا تھا۔ اے خدا! تو ہی انصاف کرنے والا ہے۔ میرے اور میری ماں کے درمیان انصاف فرما۔ اتنے میں ادھر سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا گزر ہوا۔ تو آپ نے اس سے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے جواب دیا میری ماں نے مجھے نو ماہ پیٹ میں رکھ کر پالا اور دودھ پلا کر بڑا کیا۔

مگر اب وہ مجھے اپنا بیٹا ماننے سے انکار کرتی ہے۔ مجھے گھر سے باہر نکال دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی ماں کو بلوایا۔ لڑکے کی ماں اپنے چار بھائیوں اور قبیلے کے لوگوں کے ساتھ حاضر خدمت ہوئی۔ خلیفہ وقت نے اس سے پوچھا اس لڑکے کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ عورت نے کہا یہ لڑکا صاف جھوٹ بولتا ہے۔

میں نہیں جانتی کہ یہ کون ہے اور کس قبیلے سے ہے اور کیسے مجھے ماں سمجھتا ہے۔ جب کہ میں ابھی تک غیر شادی شدہ ہوں۔ آپ نے اس کی گواہی پوچھی تو اس کے چار بھائیوں اور چالیس قبیلے والوں نے اس کی گواہی دی کہ یہ لڑکا بلاوجہ اس عورت کو ذلیل کرنا چاہتا ہے۔

لڑکے سے جب ثبوت مانگا تو اس نے کہا میرے پاس اس کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں کہ میں اس کا لڑکا ہوں اور یہی میری ماں ہے۔ میں اس کے پیٹ سے پیدا ہوا ہوں اور اس کے زیر سایہ پرورش پائی ہے۔ چونکہ عورت کی طرف سے چالیس گواہ پیش ہوئے تھے اور لڑکا کوئی گواہ پیش نہ کر سکا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس لڑکے کو جھوٹ بولنے کی وجہ سے کوڑے لگانے کا حکم دیا۔

جب اس لڑکے کو کوڑے لگانے لے جا رہے تھے۔ تو اچانک اس لڑکے کی نظر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر پڑی۔ جو اس جگہ سے تشریف لے جا رہے تھے۔ اس لڑکے نے زور زور سے آواز لگائی۔ اے رسول اللہ کے بھائی میں بہت مظلوم ہوں۔ میری فریاد رسی کیجیے اور مدد کریں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس واپس لے چلو۔

جب وہ لڑکا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس واپس آیا۔ تو انہوں نے پوچھا کہ اسے واپس کیوں لائے ہو؟ لوگوں نے کہا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حکم سے واپس لائے ہیں۔ اسی وقت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی تشریف لائے اور فرمایا اس لڑکے کی ماں کو میرے سامنے لاؤ۔ جب وہ آئی تو اس سے پہلے کی طرح سوال کیے گئے۔ اس نے پہلے اپنے گواہ پیش کیے جنہوں نے اس عورت کے بارے میں گواہی دی تھی۔

لڑکے سے پوچھا تو اس نے وہی کہا جو اس نے پہلے کہا تھا۔ اب حضرت علی نے حضرت عمر سے پوچھا کیا مجھے اجازت ہے کہ میں ان دونوں کا فیصلہ کر دوں؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا میں کیوں کر روک سکتا ہوں۔ جبکہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اے لوگو! تم میں سے علی میرا بھائی ہے۔ سب سے زیادہ علم جاننے والا اور انصاف کرنے والا ہے۔

اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں آج تمہارے درمیان ایسا فیصلہ کروں گا۔ جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہے اور وہ راضی ہوں گے۔ پھر آپ نے اس عورت سے کہا کیا تیرا کوئی ولی ہے۔ اس پر چاروں بھائی آگے آئے ۔آپ نے فرمایا کیا تم میرے فیصلے پر راضی ہو جو میں تمہاری بہن کے لیے کروں گا۔ کہنے لگے ہم راضی ہیں۔

اس طرح اس لڑکے سے معلوم کیا سب کی رضامندی لے کر۔ آپ نے فرمایا میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور حاضرین کو بھی گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اس عورت کو با عوض چار سو درہم کے اس لڑکے کے نکاح میں دیا اور چار سو درہم اس لڑکے کو دے کر اس عورت کے دامن میں ڈال دے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے مکان پر لے جا اور اس سے پہلے واپس نہ آنا جب تک غسل جنابت سے فارغ نہ ہو جائے۔

جوں ہی یہ فیصلہ اس عورت نے سنا۔ تو اس کی چیخ نکل گئی اور کہا اے برادر رسول کیا غضب ہو گیا ہے۔ میں بالکل ہی جہنم کا ایندھن بن جاؤں گی۔ میں اقرار کرتی ہوں یہ میرا لڑکا ہے اور میں اس کی ماں ہوں۔ ایک ماں کیوں کر اپنے بیٹے کی بیوی ہو سکتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا پہلے کیوں نہ اقرار کرتی تھی؟

کہنے لگی میری کوئی خطا نہیں۔ یہ سب قصور میرے بھائیوں کا ہے۔ کیونکہ انہوں نے میری شادی ایک مالدار سے کی جس کا انتقال ہو گیا۔ جس سے یہ لڑکا پیدا ہوا۔ جب یہ لڑکا بڑا ہوا تو میرے بھائیوں نے میرے لڑکے کو الگ کر دیا اور مجھے خوفزدہ کر کے یہ کہلوایا کہ یہ میرا بچہ نہیں۔ مگر میرا دل میرے بچے کے لیے تڑپتا رہتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ اپنے بچے کا ہاتھ پکڑ کر میرا بچہ کہتے ہوئے چل پڑی۔ دوستوں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اہل بیت کی سچی اور پکی محبت عطا فرمائے۔ گناہ سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین