حضرت صالح علیہ السلام اور قوم ثمود کا واقعہ

جب طوفان نوح کے بعد دنیا میں بنی نوح انسان پھر سے بسنا شروع ہو رہے تھے لوگ قبیلہ میں رہ کر زندگی گزارتے تھے ان دنوں عرب شمالی علاقے میں قوم ثمود نامی ایک قبیلہ آباد تھا۔ جو حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کی اولاد تھے۔ قوم ثمود کا یہ علاقہ مدائن کہلاتا تھا۔ جو بہت ہی سرسبز اور شاداب علاقہ تھا۔ قوم ثمود کے لوگ نہایت ہی طاقتور اونچے قد والے اور زبردست شان و شوکت کے مالک تھے۔ انہیں فن تعمیر میں کمال حاصل تھا۔ یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر انتہائی خوبصورت عمارتیں بناتے تھے۔ایسی بے مثال عمارتیں مدینہ صالح کے علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں بنائی گئی تھی قوم ثمود اپنی عالیشان محل سرسبز کھیت کھلیان اور نعمتوں کی فراوانی کے سبب غرور تکبر اور سرکشی کے نشے میں چور تھے قوم ثمود کے معاشرے سے حق اور انصاف ختم ہو چکا تھا لوگ بے حیائی فحاشی میں پڑ گئے۔ یہاں تک کہ یہ لوگ سب سے بڑا جرم اور گناہ یعنی شرک میں بھی مبتلا ہو گئے۔ ابلیس نے قومی ثمود کے پہاڑ کاٹ کر پتھر تراشنے کے اس فن کو ہی ان کے لیے غلط راہ کا ذریعہ بنا دیا۔ ان لوگوں نے پہاڑوں سے پتھر تراشے اور بت بنا کر اس کی پوجا شروع کر دی۔ روایتوں کے مطابق انہوں نے پتھر کی ستر مورتیاں بنائی اور انہیں اپنے قبیلے میں قائم کر کے اس کی عبادت شروع کر دی۔لہذا اس سرکش قوم کی ہدایت کے لئے اللہ رب العزت نے ان کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا جو خود قوم ثمود سے تعلق رکھتے تھے اور ایک نیک صفت انسان تھے حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں ایک اللہ کو ماننے کی عبادت دی اور ان کو اپنے اوپر اللہ تبارک و تعالی کی دی گئی نعمتیں یاد دلا کر سمجھایا اور عذاب الہی سے ڈرایا حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اسی نے تم کو پیدا کیا اور آباد کیا اس کی مغفرت مانگو اور اس کے آگے توبہ کرو بے شک میرا پروردگار نزدیک بھی ہے اور دعا قبول کرنے والا بھی ہے اس پر قوم ثمود ان کے خلاف ہو گئے اور انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام سے کہا اے صالح کیا تم ہم کو ان چیزوں سے منع کرتے ہو جن کو ہمارے بزرگ پوچھتے چلے آئے ہیں صالح علیہ سلام کی مسلسل نصیحت کے بعد قومی ثمود کے چند غریب اور مفلس لوگ آپ پر ایمان لے آئے اب اس قوم کے سرداروں کو یہ بات گراں گزری کہ معاشرے کے یہ مفلس لوگ صالح علیہ السلام کے دین کی پیروی کریں گے اور ہمارے محفلوں چوک چوراہوں پر کھڑے ہو کر ان کے بتوں کا انکار کریں گے لہذا اس قوم کے تمام بڑے سردار ایک جگہ جمع ہوئے اور یہ فیصلہ کیا کہ حضرت صالح علیہ السلام سے معجزہ دکھانے کو کہیں گے لہذا سرداران نے حضرت صالح سے کہا اے صالح اگر تم اللہ کے سچے پیغمبر ہو تو ہم کو کوئی ایسا معجزہ دکھاؤ جسے دیکھ کر ہمیں تم پر یقین آجائے حضرت صالح علیہ السلام نے اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعا فرمائی اللہ نے اپنے نبی دعا قبول فرمائی اور دیکھتے ہی دیکھتے چٹان شک ہو گئی اور اس میں سے ایک طویل القامت خوبصورت اونٹنی برآمد ہوئی جس میں وہ سب خوبیاں موجود تھیں جن کی قوم ثمود نے فرمائش کی تھی جندا بن امر بن لبید اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایمان لے آیا۔ لیکن اکثر سردار اپنی اسے جادو قرار دے کر اس معجزے کا انکار کر دیا۔ یہ اونٹنی اس قوم کے لیے معجزہ بھی تھی اور ایک آزمائش بھی اس اونٹنی نے پیدا ہوتے ہی اپنے برابر ایک بچہ جانا حضرت صالح علیہ السلام نے اونٹنی کے بارے میں فرمایا کہ تم اسے تنگ نہ کرنا اسے اس کے حال پر چھوڑ دو اسے برائی کی نیت سے ہاتھ بھی نہ لگانا نہ مارنا اور نہ ہکانا اور نہ ہی قتل کرنا ورنہ تمہیں دردناک عذاب پکڑ لے گا یہ اونٹنی میدان صالح کی وادیوں میں رہنے لگی اور جب پانی پینے آتی تو اس دن سارے تالاب کا پانی پی جاتی اور لوگ اپنی حاجت دوسرے دن پوری کرتے جس دن یہ اونٹنی پانی پیتی اس دن اس کا دودھ دھوا جاتا تو وہ اتنا ہوتا کہ تمام قبیلے کو کافی ہو جاتا تھا چند دن تو قوم ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا کہ ایک دن ان کو پانی نہیں ملتا تھا کیونکہ اس دن تالاب کا سارا پانی اونٹنی پی جاتی تھی اس لیے ان لوگوں نے طے کیا کہ اس اونٹنی کو قتل کر دیں قوم ثمود میں ایک صدوق نامی عورت تھی۔ جو بڑی حسین اور مالدار تھی۔ اس کی لڑکیاں بہت خوبصورت تھیں۔ اس نے مصدہ ابن دہر اور قیدار بن صالف کو بلا کر کہا کہ اگر تم اونٹنی کو ذبح کر دو تو میری جس لڑکی سے چاہو نکاح کر لینا۔ چنانچہ قدار بن صالف جو سرخ رنگ کا بھوری آنکھوں والا پستہ قد آدمی تھا اور ایک زنا کار عورت کا لڑکا تھا۔ وہ اونٹنی کو قتل کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ ایک دن اس قوم کے نو افراد اونٹنی کے انتظار میں کنویں کے پاس گھات لگا کر بیٹھ گئے جبکہ قوم کے لوگ اللہ کے عذاب کے ڈر سے چھپ کر یہ منظر دیکھنے لگے جب اونٹنی کنویں کے قریب آئی تو مصدہ نامی شخص نے تیر چلایا جو اس کے پنڈلی میں پیوست ہو گیا اور ٹانگ سے خون جاری ہو گیا لہذا قدار بن صالح آگے بڑھا اور تلوار کے ایک بھرپور وار سے اونٹنی کے پچھلے پاؤں کو کاٹ ڈالا اونٹنی شدید زخمی ہو کر زمین پر گر پڑی اور ایک چیخ ماری۔ اس اثناء میں زخمی اونٹنی کو گھیرے میں لے کر اس پر نیزوں اور تلواروں کی لاتعداد وار کیے گئے جسے وہ ہلاک ہو گئی۔ ادھر اس کا بچہ بھاگتا ہوا پہاڑ پر چڑھا اور چیخیں مارتا ہوا غائب ہو گیا۔ جب حضرت صالح علیہ السلام کو اونٹنی کے قتل کی خبر ہوی تو آپ نے بہت افسوس کیا اور فرمایا تم تین دن کے بعد ہلاک ہو جاؤ گے۔ قوم ثمود کی اس سرکشی پر عذاب خداوندی کا ظہور اس طرح ہوا پہلے ایک زبردست خوفناک آواز آئی پھر شدید زلزلہ آیا جس سے پوری آبادی اتھل پھوتھل ہو کر چکنا چور ہو گئی تمام عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہو گئی اور قوم ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مر گیا صالح علیہ السلام کی پوری بستی زلزلوں کے جھٹکوں سے تباہ و برباد ہو کر اینٹ پتھروں کا ڈھیر بن گئی حضرت صالح علیہ السلام نے ان لوگوں کی طرف سے منہ پھیر لیا اور اس بستی کو چھوڑ کر دوسری جگہ تشریف لے گئے