حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب کیوں آیا؟

دوستوں سترہ سو سال قبل مسیح مدین کے لوگ مدین ایک شہر کا نام تھا جس میں حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کا قبیلہ رہتا تھا۔ یہ شہر خلیج اقبا کے مشرق میں تھا۔ یعنی حجاز کے شمال اور شامات کے جنوب میں۔ وہاں کے باشندے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تھے۔ وہ مصر لبنان اور فلسطین سے تجارت کرتے تھے۔ وہاں موجود امیر افراد تجارت کے ذریعے ناجائز منافع کماتے۔ اور اپنی دولت اور اثر و رسوخ کی بدولت غریب لوگوں کے مال پر قبضہ کر لیتے۔ اس لیے ان کی دولت میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا۔ ان لوگوں کو اللہ نے تمام نعمتوں سے نوازا تھا لیکن وہ پھر بھی ظالم بن کر لوگوں پر ظلم کرتے۔ اور ان کے سب سے امیر افراد اپنی دولت میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوششوں میں ہوتے۔ یہاں تک کہ اللہ نے اس قوم میں حضرت شعیب علیہ السلام کو اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا۔ قرآن کریم میں حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم کا تذکرہ گیارہ مقامات پر آیا ہے۔ دنیا میں بھی انبیاء کرام مبعوث فرمائے گئے ان کی دعوت کا مشترکہ مقصد حقوق اللہ یعنی اللہ کی عبادت اور حقوق العباد جس کا تعلق انسانوں سے ہے ان کی تعلیم دینا تھا دنیا میں قوم لوط کے بعد قوم شعیب وہ قوم تھی جو دونوں حقوق پامال کر رہی تھی ایک طرف وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لا کر اللہ کی خلاف ورزی کر رہی تھی تو دوسری طرف ناپ تول میں کمی لوٹ مار جیسے گھناؤنے جرائم کے مرتکب ہو کر حقوق العباد کی دھجیاں بکھیر رہی تھیں قرآن کریم میں قوم شعیب علیہ السلام کے تین طرح کے عیوب کا ذکر ملتا ہے ایک یہ کہ وہ لوگ کفر و شرک میں مبتلا تھے اور درختوں کی پوجا کرتے تھے دوسرا یہ کہ تجارت میں بے ایمانی اور ناپ تول میں کمی کرتے تھے تیسرا یہ کہ راستوں میں بیٹھ کر لوٹ مار کرتے لوگوں کے اموال چھینتے حضرت شعیب علیہ السلام نے پہلے انہیں توحید کی دعوت دی۔ پھر ان کی حرکتوں پر انہیں خبردار کیا۔ جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔ اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی آ چکی ہے۔ تو تم ناپ تول پوری طرح کیا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو۔ اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرو۔ اگر تم ایمان ہو تو سمجھ لو کہ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے اور ہر راستے پر مت بیٹھا کرو جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے اسے تم ڈراتے اور راہ حق سے روکتے ہو اور اس میں کبھی عیب ڈھونڈتے ہو اور یاد رکھو جب کہ تم بہت تھوڑے تھے پھر اللہ نے تم کو کثیر کر دیا اور دیکھو کیا ہوا انجام فساد کرنے والوں کا حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحتوں پر اس قوم کے کچھ لوگوں نے آپ کی بات پر یقین کر لیا لیکن دوسری حضرت شعیب علیہ السلام کی توحید کی دعوت سن کر قوم کے متکبر سردار سخت غصہ ہو گئے اور انہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کو دھمکیاں دینا شروع کر دی۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا اے شعیب ہم تم کو اور تمہارے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی بستی سے باہر نکال دیں گے۔ ورنہ تم سب کو ہمارے مذہب پر واپس آنا پڑے گا۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحتوں کو سن کر ان تکبر سرداروں نے ان کو کہا جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے تم ان میں سے ہو جن پر جادو کر دیا جاتا ہے اور تم تو صرف ہماری طرح کے آدمی ہو اور ہمارا خیال ہے کہ تم جھوٹے ہو اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا گرا دو قوم کے متکبر سرداروں کی جارحانہ گفتگو کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے اور ان پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ لہذا انہوں نے اپنے رب سے دعا کی۔ اے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیں۔ اور آپ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالی نے ان پر پہلے تو سخت گرمی مسلط فرمائی۔ اور سات دن مسلسل ان پر ہوا بند رکھی جس کی وجہ سے پانی اور سایہ بھی ان کی گرمی نہ کم کر سکا اور نہ ہی درختوں کے جھنڈ کام آئے اور گرمی اتنی زیادہ ہوتی گئی کہ ان میں سے ہر ایک شخص کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ان کا دماغ ابل رہا ہو اور ایسا لگ رہا تھا جیسے ان پر آگ برس رہی ہو اس مصیبت سے گھبرا کر وہ سب بستی سے جنگل کی طرف بھاگے اچانک وہاں ان پر بادلوں نے سایہ کر لیا۔ سب گرمی اور دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے اس سائے تلے جمع ہو گئے۔ اور سکون کا سانس لیا۔ لیکن پھر چند لمحوں بعد ہی آسمان سے آگ کے شعلے برسنا شروع ہو گئے۔ زمین زلزلے سے لرزنے لگی۔ اور پھر آسمان سے ایک سخت چنگاڑ آئی۔ تو اس نے ان کی روحوں کو نکال دیا۔ اور ان کے کلیجے پھٹ گئے۔ اور جسموں کو تباہ و برباد کر دیا۔اس عذاب کے خاتمے کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام اس علاقے میں گئے تو اپنی قوم کو جب دیکھا تو وہ سب پتھر کی طرح اسی جگہ جم گئے تھے