حضرت سلیمان عليه السلام اور چونٹی کا واقعہ

دوستو آج آپ کے لیے حضرت سلیمان علیہ السلام اور ایک چیونٹی کا ایک خوبصورت واقعہ لے کر حاضر ہوا ہوں امید ہے کہ یہ ویڈیو آپ دوستوں کو پسند آئے گی دوستو یہ بات سبھی جانتے ہوں گے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت ہوا پر تھی پانی پر جانوروں پر جنات پر اور انسانوں پر بھی تھی اور سب کی بولیاں بھی آپ علیہ سلام سمجھتے تھے ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام دریا کے کنارے پر بیٹھے ہوئے اللہ کی قدرت کا نظارہ فرما رہے تھے تو دیکھا کہ ایک چیٹی آئی جس کے منہ میں ایک دانہ تھا اور یہ اس دانے کو لے کر دریا کے کنارے جا رہی تھی حضرت سلیمان علیہ السلام یہ سب دیکھ رہے تھے کہ چیٹی چلتے چلتے دریا کے کنارے پر جا پہنچے اسی دوران ایک مینڈک دریا سے باہر آیا اور منہ کھولا چینٹی اس کے منہ میں چلی گئی اور مینڈک واپس دریا میں چلی گئی یہ سب منظر اللہ کے نبی دیکھ رہے تھے کچھ دیر کے بعد وہ مینڈک پھر آیا اس نے پھر منہ کھولا اور چیٹی اس کے منہ سے باہر آ گئی حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک فرق محسوس ہوا کہ اس سے پہلے چیونٹی جب مینڈک کے منہ میں گئی تھی تو اس کے منہ میں دانہ تھا جو اب اس کے منہ میں نہیں ہے دوستو جیسے کہ پہلے بھی آپ کو بتایا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام سب سے بات کیا کرتے تھے تو آپ علیہ السلام نے چیٹی کو طلب کیا اور پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے یہ تم کیا کر رہی ہو ابھی تم منہ میں دانہ لے کر مینڈک کے منہ میں گئی تم کہاں گئی تھی یہ چیٹی کہنے لگی اے پیغمبر خدا اس سمندر کی گہرائی میں جا کر دور ایک پتھر کے اندر ایک کیڑا رہتا ہے اللہ نے اس کیڑے کو ایسے مقام پر پیدا کیا ہے کہ وہ وہاں سے نہیں نکل سکتا وہی اس کی کل کائنات ہے مجھے اللہ نے اس کام پر مقرر کیا ہے کہ میں اس کو کھانا پہنچاؤں قادر مطلق نے اس مینڈک کو معمور کیا ہے مینڈک روزانہ مجھے اپنے منہ میں لے کر پانی سے ہوتا ہوا اس پتھر پر لے جاتا ہے وہ مینڈک اپنا منہ اس پتھر کے سوراخ پر رکھ دیتا ہے میں اس کے منہ سے نکل کر کیڑے کے پاس جاتی ہوں وہ اناج جو میرے منہ میں ہوتا ہے وہ اناج میں اس کے پاس رکھ دیتی ہوں یہ مینڈک میرا انتظار کرتا رہتا ہے میں واپس اس کے منہ میں داخل ہو جاتی ہوں یہ پانی میں تیرتے ہوئے مجھے واپس پانی سے باہر لے آتا ہے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس سے پوچھا کہ جب تم اس کا کھانا لے کر جاتی ہو تب تم نے اس کی کبھی کوئی گفتگو سنی ہے چیٹی کہنے لگی ہاں جب میں اس کے لیے کھانا لے کر جاتی ہوں تو ہر روز اس کیڑے کی گفتگو سنتی ہوں حضرت سلیمان علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ وہ کیڑا کیا کہتا ہے چیٹی بولی وہ کیڑا کہتا ہے اے وہ ذات جس نے سمندر کی گہرائیوں میں اس پتھر کے اندر بھی مجھے نہیں بلایا اپنے مومن بندوں پر اپنی رحمت کو بھی مت بھولنا اب اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی کہ ایک دفعہ اللہ کی مخلوق کو میں کھانا کھلاؤں گا اللہ تعالی کے دیے ہوئے رزق سے ہی میں کھلاؤں گا حضرت سلیمان علیہ السلام سے ہم کلام ہوئے اور عرض کیا کہ اے میرے معبود تو مجھے اجازت دے کہ میں تیری تمام مخلوقات کو پورے سال کا کھانا کھلاؤں ان کی دعوت کروں اے میرے رب یہ میری خواہش ہے تو اللہ نے ان کے پاس وحی بھیجی اور فرمایا اے سلیمان تو اس پر ہرگز قدرت نہیں رکھتا حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ پھر درخواست کی کہ مجھے صرف سات دن کی ہی اجازت دیں کہ میں آپ کی مخلوقات کو کھانا کھلا سکوں اللہ تبارک و تعالی نے ایک مرتبہ پھر فرمایا اے سلیمان تو اس پر قدرت نہیں رکھتا حضرت سلیمان علیہ السلام نے تیسری مرتبہ پھر فرمایا اے میرے پروردگار مجھے صرف ایک دن کی ہی اجازت دے دیں کہ میں آپ کی تمام مخلوقات کو کھانا کھلا سکوں اللہ تبارک و تعالی نے پھر فرمایا اے سلیمان تو اس پر قدرت نہیں رکھتا بہرحال اللہ تعالی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک دن کی اجازت دے دی کہ وہ دنیا کی تمام مخلوقات کو کھانا کھلائے آپ علیہ السلام کو اجازت مل گئی تو آپ علیہ السلام نے تمام جنات اور انسانوں کو حکم دیا کہ وہ تمام کے تمام ان چیزوں کو جو زمین پر حلال ہے گائے, بکریاں, دنبے وغیرہ وغیرہ اور ان تمام چیزوں کو جو جنس حیوان میں سے ہیں یعنی پرندے وغیرہ ان سب کو جمع کر لیں جنات اور انسانوں نے مل کر ان تمام چیزوں کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے پیش کر دیا.
بڑی بڑی دیگیں تیار کی گئیں پھر ان جانوروں کو ذبح کیا گیا اور ان کو پکایا گیا. آپ علیہ سلام نے کو ہواں کو حکم دیا کہ کھانے پر دھیمے انداز میں چلتی رہے تاکہ کھانا خراب نہ ہو جائے ہوا چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ماتحت تھی اس لیے ہوا دھیمے انداز میں ان کھانوں پر چلتی رہی اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے دسترخوان بچھایا جس کی لمبائی اتنی زیادہ تھی کہ اگر ایک انسان اس کے سرے پر چلنا شروع کرتا تو دوسرے سرے تک پہنچنے میں اس کو ایک مہینے کا وقت گزر جاتا اور اتنی ہی اس دسترخوان کی چوڑائی بھی تھی جب تمام چیزیں تیار ہو چکی تو اللہ تبارک و تعالی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی اور فرمایا اے سلیمان تو مخلوقات میں سے کس سے دعوت شروع کرے گا اب حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا اے پروردگار میں دریا کے جانوروں سے شروع کروں گا تو اللہ تعالی نے سمندر کی ایک مچھلی کو حکم دیا کہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعوت کھائے کیونکہ آج ان کے لیے حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف سے دعوت ہے مچھلی نے سر اٹھایا اور کہنے لگی اے سلیمان میں نے سنا ہے تو نے ضیافت کا دروازہ کھول دیا ہے اور آج تو میری ضیافت کرے گا حضرت علیہ السلام نے فرمایا اے مچھلی تو نے ٹھیک سنا ہے آ جاؤ اور کھانا شروع کرو وہ مچھلی آگے بڑھی اور دستر کے ایک سر سے کھانا شروع کر دیا مچھلی نے اس قدر کھایا کہ کچھ ہی دیر میں سارے کا سارا دسترخوان ہی صاف کر دیا اور اس کے بعد آواز لگائی اے سلیمان مجھے کھانا کھلاؤ اور میرا شکم سیر کرو میرا پیٹ ابھی تک نہیں برا حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا تو تو سارا کھا گئی اور اس سے بھی تیرا پیٹ نہیں بھرا تو مچھلی نے کہا اے سلیمان کیا مہمان کے لیے میزبان کا جواب اس طرح ہوتا ہے اے سلیمان آپ خوب جان لیجیے جو کھانا آپ نے کئی روز سے بنایا تھا جس کھانے کو آپ کو بنانے میں کئی دن لگ گئے تھے اتنا کھانا میرا پروردگار ایک دن میں مجھے تین مرتبہ پہنچاتا ہے اور آج تک کبھی بھی اس میں کمی نہیں ہوئی اس لیے اے سلیمان آج میرے کھانے سے روکنے کا سبب تو بنا ہے کیونکہ رزق تو نے اپنے ذمے لیا تھا اور تو نے میرے کھانے میں کمی کر لی اسی وقت حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تبارک وتعالی کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے پاک ہے وہ ذات جو کفالت کرنے والی ہے مخلوق کی روزیوں کے مخلوق جانتی بھی نہیں کہ کہاں سے آتا ہے.