حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم بندر کیسے بنی

دوستوں حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم بندر کیسے بنی؟ انہوں نے اللہ رب العزت کے کون سے حکم کی نافرمانی کی تھی۔ دوستوں اللہ رب العزت نے حضرت داؤد علیہ السلام کو بادشاہت عطا کی تھی۔ انبیاء کرام علیہم السلام میں حضرت آدم علیہ السلام کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام ہی وہ پیغمبر ہیں جنہیں قرآن کریم نے خلیفہ کے لقب سے نوازا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کے ستر ہزار آدمی عقبہ کے پاس سمندر کے کنارے ایلا نامی گاؤں میں رہتے تھے اور یہ لوگ بڑی فراخی اور خوشحالی کی زندگی بسر کرتے تھے اللہ رب العزت نے انہیں بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا تھا اور یہ لوگ خدا کی عبادت سے غافل ہو گئے ناظرین اللہ رب العزت نے ان لوگوں کا اس طرح امتحان لیا کہ ہفتے کے دن کا ادب ان پر لازم قرار دیا اس دن مچھلی کا شکار ان لوگوں پر حرام فرما دیا اور ہفتے کے باقی دنوں میں شکار حلال تھا مگر اس طرح ان لوگوں کو آزمائش میں مبتلا فرما دیا کہ ہفتے کے دن بے شمار مچھلیاں آتی تھیں اور دوسرے دنوں میں کم آتی تھی تو شیطان نے ان لوگوں کو وارگلایا کہ سمندر سے کچھ نالیاں نکال کر خشکی میں چند حوض بنا لو اور جب ہفتے کے دن ان نالی کے ذریعے مچھلیاں حوض میں آجائیں تو نالیوں کا منہ بند کر دو اور اس دن شکار نہ کرو بلکہ دوسرے دن آسانی کے ساتھ ان مچھلیوں کو پکڑ لو ناظرین ان لوگوں کو یہ شیطانی چال پسند آ گئی اور ان لوگوں نے یہ نہیں سوچا کہ جب مچھلیاں نالیوں اور حوضوں میں مقید ہو گئیں تو یہی ان کا شکار ہو گیا تو ہفتے ہی کے دن شکار کرنا پایا گیا جو ان لوگوں کے لیے حرام تھا اس موقع پر ان یہودیوں کے تین گروہ ہو گئے کچھ لوگ ایسے تھے جو شکار کے اس شیطانی حیلہ سے منع کرتے تھے اورشکار سے باز رہے جب کہ دوسرے گروہ کے لوگ اس کام کو دل سے تو برا جان کر خاموش تھے مگر دوسروں کو منع نہیں کرتے تھے بلکہ منع کرنے والوں سے یہ کہتے تھے کہ تم لوگ ایسی قوم کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ رب العزت ہلاک کرنے یا سخت سزا دینے والا ہے جبکہ تیسرا گروہ وہ ذلیل و نافرمان لوگ تھے جنہوں نے اللہ کے حکم کی مخالفت کی اور شیطان کی حیلہ بازی کو مان کر ہفتے کے دن شکار کر لیا اور ان مچھلیوں کو کھایا اور بیچا بھی ناظرین جب نافرمانوں نے منع کرنے کے باوجود شکار کر لیا تو منع کرنے والی جماعت نے کہا کہ اب ہم ان معصیت کاروں سے کوئی میل ملا نہ رکھیں گے چنانچہ ان لوگوں نے گاؤں کو تقسیم کر کے درمیان میں ایک دیوار بنا لی اور آمدورفت کا ایک الگ دروازہ بھی بنا لیا حضرت داؤد علیہ السلام نے غضب ناک ہو کر شکار کرنے والوں پر لعنت فرما دی اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک دن خطا کاروں میں سے کوئی بھی باہر نہیں نکلا تو انہیں دیکھنے کے لیے کچھ لوگ دیوار پر چڑھ گئے تو کیا دیکھا کہ وہ سب کے سب بند بن گۓ ہیں اب لوگ ان مجرموں کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو وہ بندر ان کے پاس آکر ان کے کپڑوں کو سونگھتے تھے اور زار و قطار روتے تھے مگر لوگ ان بندر بن جانے والوں کو نہیں پہچانتے تھے ان بندر بن جانے والوں کی تعداد تاریخ میں بارہ ہزار لکھی ہوئی ہے یہ سب تین دن تک زندہ رہے اور کچھ بھی کھا پی نہ سکے بلکہ یوں ہی بھوکے پیاسے سب کے سب ہلاک ہو گئے