
حضرت داؤد علیہ السلام کا مکمل واقعہ
دوستوں حضرت داؤد نو سو پینسٹھ سال قبل مسیح فلسطین میں پیدا ہوئے آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تھے محمد بن اسحاق حضرت وہاب بن ممبر رحمتہ اللہ کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ حضرت داؤد پستہ قد تھے آنکھیں نیلی تھی جسم پر بال بہت کم تھے چہرے سے پاکیزگی جھلکتی تھی نہایت ہمدرد قوی بہادر اور نڈر تھے حکمرانی اور فیصلہ کرنے کی قوت تحفہ خداوندی میں ملی تھی حضرت داؤد سے قبل بنی اسرائیل میں نبوت آل لابی بن یعقوب میں چلی آ رہی تھی جب کہ بادشاہت دوسرے خاندان یہودہ بن یعقوب میں تھی لیکن اللہ رب العزت نے پہلی مرتبہ دونوں اعزازات ایک ہی شخصیت میں فرما دیے۔ حضرت داؤد اللہ کے برگزیدہ نبی اور رسول تھے اور بادشاہ بھی اور یاد رہے کہ انبیاء کرام میں حضرت آدم علیہ السلام کے بعد حضرت داؤد ہی وہ پیغمبر ہیں جنہیں قرآن کریم نے خلیفہ کے لقب سے نوازا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے اے داؤد ہم نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنا دیا۔ تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو سورہ سعد آیت نمبر چھبیس پیارے دوستو یہاں داؤد علیہ السلام کی پہلے فتح کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جو کم سنی کی عمر میں آپ کو ہوئی کہتے ہیں کہ قوم امالکہ کے ظالم و جابر بادشاہ جالود کی فوج کے مقابلے میں سفارا بنی اسرائیل کے بادشاہ حضرت آلود کے لشکر میں ایک کم عمر نوجوان بھی اپنی غلیل کے ساتھ شامل تھا کیونکہ نوعمر ہونے کی وجہ سے اسے اسلحہ نہیں دیا گیا تھا جالود جسم کو سامان حرب سے سجائے نہایت ارعونت اور تکبر سے شاہی سواری پر بیٹھا اہل ایمان کو دعوت مبارکت دے رہا تھا ابھی بنی اسرائیل کا یہ چھوٹا سا لشکر کوئی فیصلہ بھی نہ کر پایا تھا اچانک ان کی صفوں میں موجود یہ کم عمر نوجوان عقاب جیسی برق رفتاری سے باہر نکلا اور جالود کے سامنے پہنچ کر اسے للکارنے لگا گوشت کے پہاڑ لحیم شہیم اور طویل القامت جالود نے حیرت کے ساتھ نوجوان کو دیکھا تو حقارت سے بولا جا میری آنکھوں کے سامنے سے دور ہو جا میں تجھے قتل کرنا پسند نہیں کرتا بے خوف نوجوان نے بادشاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گرج دار آواز میں جواب دیا لیکن تجھے قتل کرنا مجھے پسند ہے پھر نوجوان کی غلیل سے گولی کی طرح نکلنے والے پتھر سے جادود کا متکبر سر پاش پاش ہو چکا تھا اور اس کا طاقتور جسم زمین پر اوندھے منہ پڑا تھا۔ یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ جالود کی اسلحے سے لیز فوج کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا اور وہ بدحواس ہو کر بھاگ کھڑی ہوئی۔ یہ نوجوان ایک چرواہا تھا جو سارا دن جنگل میں بکریاں چرایا کرتا اور غلیل سے بکریوں کے قریب آنے والے درندوں کو مار بھگاتا۔ قدرت نے تو اس کے لیے فیصلہ کر رکھا تھا اللہ تعالیٰ نے پہلے اسے بنی اسرائیل کا بادشاہ بنایا اور پھر اسے نبوت اور رسالت کے عظیم منصب پر فائز فرمایا جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے داؤد نے جالود کو قتل کر ڈالا اور اللہ نے ان کو بادشاہی اور دانائی بخشی اور جن چیزوں کا چاہا انہیں علم دیا سورہ بقرہ آیت نمبر دو سو اکاون دوستو معلوم ہوا کہ وہ نوجوان حضرت داؤد تھے اور انہوں نے چھوٹی عمر میں جالود کو قتل کیا اور یہ آپ کی فتح تھی جس کے بعد اللہ تعالی نے آپ کو بادشاہت بھی عطا فرمائی اور نبوت بھی اور آپ کو اللہ تعالی نے کتاب یعنی زبور بھی عطا فرمائی جیسا کہ قرآن کریم کی سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے اور ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر فضیلت بخشی اور داؤد کو زبور عنایت کی اور سورہ نساء میں ارشاد باری تعالی ہے اور ہم نے داؤد کو زبور بھی عنایت کی تھی آیت نمبر ایک سو تریسٹھ پیارے دوستوں امام بغوی رحمت اللہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے زبور اللہ کی کتاب جو حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ اس میں ایک سو پچاس سورتیں ہیں جو دعاؤں اور حمد و ثناء پر مشتمل ہیں۔ تاہم ان میں حلال و حرام اور فرائض و حدود کا بیان نہیں ہے۔ زبور کے لقوی معنی پارے یا ٹکڑے کے ہیں۔ دراصل زبور کے نزول کا مقصد تورات کی تکمیل تھا۔ اس لیے گویا یہ توراتی کا ایک حصہ یا ٹکڑا ہے۔ دوستوں آپ کو بتاتے چلیں کہ زبور اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا سے مزین ہے۔ اور حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالی نے دل نشین آواز اور انگیز لہن عطا فرمایا تھا۔ آپ جب زبور کی تلاوت فرماتے تو وجد آفرین تلاوت سے محصور ہو کر چرند پرند درخت پہاڑ جن و ان سے دریا اور سمندر یعنی سب اللہ کی حمد و ثناء میں محب ہو جاتے۔ اسی لیے آج تک لحن داؤدی ضرب المثل ہے۔ مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ داؤد علیہ السلام پر قرت کو آسان اور ہلکا کر دیا گیا تھا۔ وہ اپنے گھوڑے زہن کسنے کا حکم فرماتے اور اس سے پہلے کہ زہن کسی جاتی آپ پوری طرح زبور تلاوت کر چکے ہوتے حضور نبی اکرم جب حضرت ابو موسی عشری کی تلاوت قرآن سنتے تو فرماتے ابو موسی کو اللہ نے لحن داؤدی عطا فرمایا ہے دوستوں یہ آپ کا ایک عظیم معجزہ تھا کہ ہر چیز آپ کے ساتھ مل کر اللہ کی تسبیح کرتی تھی اور اس کے علاوہ بھی اللہ نے آپ کو معجزات عطا کر رکھے تھے اللہ تبارک و تعالی نے حضرت داؤد کو دوسرا معجزہ یہ عطا فرمایا تھا کہ لوہے کو ان کے لیے موم کی طرح نرم فرما دیا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے اور ان کے لیے ہم نے لوہے کو نرم کر دیا کہ کشادہ زیریں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑو اور نیک عمل کرو سورجبا حضرت حسن بصری قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے ان کے لیے لوہے کو نرم کر دیا حتیٰ کہ بغیر آگ بھٹی کے اپنے ہاتھ کے ساتھ اسے ہر طرح سے موڑ لیا کرتے انہیں لوہا موڑنے کے لیے ہتھوڑے کی ضرورت پڑتی اور نہ کسی دوسرے عذر وہ موم کی طرح ہاتھ سے اس کے کڑیاں بنا لیا کرتے حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے شخص جنہوں نے کڑیوں کی انتہائی محفوظ زیرہ بنائی وہ حضرت داؤد ہیں اس سے پہلے صاف چادر کی زہیں بنتی تھیں ابن شوزہ فرماتے ہیں کہ اب دن میں ایک زرہ بنا لیا کرتے جو چھ سو درہم میں فروخت ہوتی تھی دوستوں جہاں تک بات ہے زرہ سازی کی حکمت تھی تو اللہ تعالی فرماتے ہیں اور ہم نے اسے یعنی داؤد کو تمہارے لیے لباس بنانے کا ہنر سکھایا تاکہ لڑائی کے ضرر سے سورہ انبیاء آیت نمبر اسی تفسیر ابن کثیر میں حافظ ابن اساکر کی روایت ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام اپنی خلافت کے زمانے میں بھیس بدل کر بازاروں میں جاتے اور لوگوں سے پوچھا کرتے داؤد کیسے آدمی ہیں چونکہ سلطنت میں عدل و انصاف عام تھا اور لوگ عیش و آرام سے رہتے تھے کسی کو حکومت سے شکایت نہ تھی اس لیے آپ جس سے بھی سوال کرتے وہ حضرت داؤد علیہ السلام کی تعریف ہی کرتا اللہ تعالی نے آپ کی تعلیم کے لیے ایک فرشتے کو انسانی شکل میں بھیجا تو آپ نے حسب عادت اس سے بھی وہی سوال کیا فرشتے نے جواب دیا داؤد تو بہت اچھے آدمی ہیں وہ اپنے اپنی رعیت کے لیے بھی بہتر ہیں۔ مگر ان میں ایک عادت ایسی ہے کہ وہ نہ ہوتی تو کامل انسان ہوتے۔ داؤد علیہ السلام نے پوچھا کہ وہ عادت کیا ہے فرشتے نے کہا وہ اپنے اور اہل و عیال کے خرچ کے لیے بیت المال میں سے لیتے ہیں۔ یہ بات سن کر حضرت داؤد علیہ السلام نے دعا فرمائی اے اللہ مجھے کوئی ایسا کام سکھا دے جو میں اپنے ہاتھ سے کروں اور اس کی اجرت سے اہل و عیال کے اخراجات پورے کر سکوں۔ عوام کی خدمت اور سلطنت کے تمام کام پہ میں معاوضہ کروں۔ ان کی قبول ہوئی اور انہیں زرہ بنانے کا ہنر سکھا دیا گیا محرف القرآن آپ کی عبادت اور اطاعت کی قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو جو صاحب قوت تھے اور بے شک وہ رجوع کرنے والے تھے سورہ سعد آیت نمبر سترہ مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے حضرت داؤد کے بہت زیادہ عبادت میں مصروف رہنے کی جانب اشارہ فرمایا ہے حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب نماز علیہ السلام کی نماز اور سب سے زیادہ محبوب روزے داؤد علیہ السلام کے روزے ہیں۔ وہ نصف رات تک سوتے پھر اٹھ کر رات کا تہائی حصہ عبادت میں کھڑے رہتے اور رات کے آخری حصے میں سو جاتے۔ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ناغہ کرتے۔ جنگ میں فرار نہ ہوتے۔ صحیح بخاری و مسلم دوستوں یاد رہے کہ حضرت داؤد اپنے زمانے میں لوگوں کے مقتدا اور پیشوا تھے۔ آپ عدل و انصاف اور زہد و تقویٰ میں مشہور تھے۔ آپ بے مثال خطیب بھی تھے اور خطبات میں حمد و ثناء کے بعد اما بعد سب سے پہلے انہوں نے ہی کہنا شروع کیا معرف القرآن پیارے دوستو اللہ تعالی نے حضرت داؤد کو نبوت و رسالت کے ساتھ حکومت بھی عطا فرمائی تھی اور آپ کو بہت سے اوصاف حمیدہ سے نوازا تھا آپ فن نے خطابت کے ماہر تھے جبکہ آواز بھی خوبصورت پائی تھی لہذا درس و تبلیغ اور وعظ و نصیحت کے ذریعے بنی اسرائیل میں جذبہ جہاد ابھارا اور انہیں کفار مشرکین کے ساتھ جنگ پر آمادہ کیا جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے اور ہم نے اس یعنی داؤد کی حکومت کو مضبوط اور انہیں حکمت، نبوت اور فیصلے کی قوت عطا کی۔ روایات میں آتا ہے کہ بہت تھوڑے عرصے میں فلسطین، عراق، شام، دمشق اردن اور خلیج عقبہ سے فرات تک جزیرہ عرب کے بیشتر علاقے ان کے زیر نگیں آ چکے تھے۔ روایت کے مطابق حضرت داؤد نے ایک سو سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ نے وسیع و عریض سلطنت پر چالیس سال حکومت کی۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت داؤد ہفتے کے دن اچانک وفات پا گئے اور پرندوں کی ٹکڑیاں ابر کی طرح ان پر سایہ فگن تھیں۔ آپ کے جنازے میں شریک صرف علماء بنی اسرائیل کی تعداد چالیس ہزار تھی۔ کہ عوام الناس کی کثیر تعداد اس کے علاوہ تھی بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی وفات کے بعد اس قدر رنج و غم کسی اور کی وفات پر نہ ہوا ابن کثیر