ناظرین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی زندگی میں کوئی خواہش نہیں کی بائیس لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے بادشاہ جس کے دربار میں اس وقت کے بڑے بڑے لوگ سلامی پیش کرتے تھے سادگی اور خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ ایک دن مچھلی کھانے کو دل چاہا تو اپنے وفادار غلام یرقہ سے اظہار فرمایا آپ نے غلام سے فرمایا یرقہ آج مچھلی کھانے کو بے حد دل کرتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جیب میں اتنے پیسے نہیں کہ بازار سے خرید کر لا سکوں اس لیے دریا کے پاس آٹھ میل دور مچھلی پکڑنے کے لیے جانا پڑے گا پھر آپ نے فرمایا رہنے دو کھاتے ہی نہیں ایک چھوٹی سی خواہش کے لیے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالنا اچھا نہیں لگتا چھوڑو یرقہ اگر قریب سے ملتی تو اور بات تھی غلام کہتا ہے میں کئی سالوں سے آپ کا خادم تھا لیکن کبھی آپ نے کوئی خواہش نہیں کی پر آج جب خواہش کی تو میں نے دل میں خیال کیا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پہلی مرتبہ خواہش کی اور میں پوری نہ کر سکوں ایسا کیسے ہو سکتا ہے غلام کہتے ہیں جناب عمر فاروق ظہر کی نماز پڑھنے گئے تو مجھے معلوم تھا ان کے پاس کچھ مہمان آئے ہوئے تھے میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پیچھے نماز پڑھی اور فورا گھوڑے پر بیٹھا وہ عربی نسل کا گھوڑا تھا دوڑا کر میں دریا پر پہنچ گیا عربی نسل کے گھوڑے انتہائی تیز رفتار اور طاقتور ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے آٹھ میل کا فاصلہ کوئی زیادہ نہیں تھا وہاں پہنچ کر میں نے ایک ٹوکرا کا خریدا اور عصر کی نماز ہونے سے پہلے میں واپس بھی آگیا۔ گھوڑے کو ٹھنڈی چھاؤں میں باندھ لیا تاکہ اس کے جسم پر آیا ہوا پسینہ اچھی طرح خشک ہو جائے۔ لیکن پسینے کی وجہ سے گھوڑے کی پیٹھ پر گرد و غبار جم گیا تھا اس لیے میں گھوڑے کو کنویں پر لے گیا اور واپس اپنی جگہ باندھ لیا۔ ناظرین غلام یرقہ فرماتے ہیں جب عصر کی نماز پڑھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو میں نے بھی نماز ان کے پیچھے پڑی۔ جب آپ گھر آئے تو میں نے عرض کیا حضور اللہ نے آپ کی خواہش پوری کر دی اور آپ کے لیے تازہ مچھلی کا بندوبست ہو گیا ہے یرقہ نے جیسے ہی الفاظ کہے عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ فورا اٹھے اور گھوڑے کے پاس چلے گئے گھوڑے کے پشت پر ہاتھ پھیرا اس کی ٹانگوں پر ہاتھ پھیرا پھر اس کے کانوں کے پاس گئے اور گھوڑے کا ایک کان اٹھا کر فرمانے لگے اے یرقہ تو نے سارا گھوڑا دھو لیا لیکن کانوں کے پیچھے سے پسینہ صاف کرنا تجھے یاد نہیں رہا ناظرین یہ سب دیکھنے کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور کہا یرقہ مجھے آپ کی وفاداری میں کوئی شک نہیں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ میں کوئی زیادہ نیک آدمی بھی نہیں میں تو صرف دعائیں مانگتا ہوں اے اللہ مجھ پر رحم کر اور میری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے میں نے کوئی زیادہ تقوی اختیار نہیں کیا اور بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمانے لگے یرقہ چل تو بتا اگر یہ گھوڑا قیامت کے روز اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرے کہ اے اللہ عمر نے مجھے اپنی ایک چھوٹی سی خواہش کے لیے سولہ میل کا سفر طے کرایا اے اللہ میں جانور تھا بے زبان تھا اے یرقہ تو بتا اللہ کے حضور گھوڑے کے سوال کا کیا جواب دوں گا؟ ناظرین غلام یرقہ فرماتے ہیں اس کے بعد عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ بہت دیر تک روتے رہے اور ساتھ میں میں بھی بہت زیادہ رویا اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے یرقہ سے کہا گھوڑے کو آج چارہ زیادہ کھلا دو اور جو مچھلی لے کر آئے ہو اسے غریب لوگوں میں تقسیم کر لو۔ اور انہیں مچھلی دے کر کہنا کہ تیری بخشش کی بھی دعا کرے اور عمر فاروق کے لیے بھی بائیس لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے بادشاہوں کے بادشاہ کا انصاف اور سادگی دیکھیں آپ کے دور حکومت میں ایک بدھو آپ سے ملنے مدینے آیا جب مدینے کے پاس پہنچا تو آدھی رات کا وقت ہو چکا تھا اس کے ساتھ حاملہ بیوی تھی تو اس نے مدینے کی حدود کے پاس خیمہ لگایا بیوی کا وقت قریب تھا تو وہ درد سے کراہنے لگی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے روز کے گشت پر تھے اور ساتھ میں ایک غلام بھی تھا۔ جب آپ نے دیکھا کہ دور شہر کی حدود میں آگ جل رہی ہے تو آپ نے غلام کو بھیجا تاکہ وہاں کی خبر حاصل کر سکے۔ ناظرین جب غلام وہاں پہنچا اور دریافت کیا تو بدھو نے غلام کو سخت ڈانٹا۔ جس کے بعد عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ خود وہاں گئے اور دریافت کیا تو اس شخص نے بتایا کہ میں امیرالمومنین حضرت عمر فاروق سے ملنے مدینے آیا ہوں۔ اس وقت میری بیوی امید سے ہے اور قریب آن پہنچا ہے۔ ناظرین اس کے بعد عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ فورا اپنے گھر روانہ ہوئے۔ آپ اپنے گھر پہنچے اور اپنی زوجہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے چلو میرے دوست کی بیوی حاملہ ہے فورا میرے ساتھ چلو اور جو سامان ساتھ لینا ہے لے لو۔ ناظرین آپ کی بیوی یعنی اس وقت کی خاتون اول نے گھی اور کچھ دانے ساتھ لیے۔ جبکہ بادشاہوں کے بادشاہ عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی پیٹھ پر لکڑیاں اٹھالی جبکہ بدو اس بات سے مکمل طور انجان تھا کہ یہ کوئی غلام یا نوکر نہیں امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ خود ہیں۔ ناظرین جب اندر بچے کی ولادت ہوئی تو آپ کی زوجہ نے آواز لگائی یا امیر المومنین بیٹھا ہوا ہے یا امیر المومنین سن کر اس شخص کے پاؤں تلے زمین کسک گئی اور با اختیار پوچھنے لگا حضور آپ امیر المومنین ہے وہی جس کے نام سے قیصر و کسریٰ کانپتے ہیں۔ وہی عمر جس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ کر مانگا۔ جس پر عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ مسکرائے اور فرمانے لگے ہاں وہی عمر ہوں۔ یہ سن کر وہ شخص بہت زیادہ حیران ہوا اور کافی دیر تک روتا رہا۔ جس پر عمر فاروق نے تاریخی الفاظ ادا کیے۔ یہ میرے آقا کا مدینہ ہے یہاں امیروں کا نہیں بلکہ غریبوں کا استقبال کیا جاتا ہے۔ یہاں یتیموں اور لاچاروں کو انصاف ملتا ہے اور سر اٹھا کر چلتے ہیں۔ ناظرین ایک مرتبہ عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ممبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ اس دوران ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے عمر اس وقت تک ہم تیرا خطبہ نہیں سنیں گے جب آپ ہمیں یہ نہ بتاؤ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جب کہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے کہیں زیادہ کم ہے سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اس مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے فورا عبداللہ کھڑے ہوئے عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا بیٹا بتاؤ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے ذات کی جس کے قبضے میں میری روح ہے قیامت تک اس ممبر پر نہیں بیٹھوں گا۔ ناظرین اس کے بعد عبداللہ نے کہا کہ بابا جان کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے اس کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اس کے پاس جو پہننے کے لیے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لیے میں نے اپنے حصے کا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔ ناظرین یہ تھا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا انصاف اور احتساب جو فرمایا کرتے تھے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو اس کے بارے میں بھی اللہ مجھ سے پوچھے گا۔ ان عظیم ہستیوں کی زندگی اور واقعات سننے کے بعد انسان کا دل بھرنے لگتا ہے
