
تمام مسلمان ایک بار یہ ویڈیو ضرور دیکھیں
غار ثور مکہ کے آخری میں ایک پہاڑ میں ہے۔ جسے جبل ثور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کر رہے تھے۔ تب راستے میں اسی غفہ میں ٹھہرے تھے اور اسی دوران ایک کے بعد ایک عجوبے ظاہر ہوئے۔ جس کی وجہ سے یہ گفہ بہت مشہور ہے۔
مکہ میں جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی طرف لوگوں کو بلانا شروع کیا۔ تو کچھ لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ لیکن کچھ لوگ نہ صرف انکار کر رہے تھے۔ بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے سخت دشمن بن گئے اور انہیں تکلیف پہنچانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے تھے۔
جب ان کی طرف سے دی گئی تکلیفیں حد سے آگے بڑھ گئیں۔ تو اللہ کے حکم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں اعلان کر دیا کہ مدینہ کی طرف ہجرت کرو۔ وہ دھیرے دھیرے مسلمان مدینہ منتقل ہونے لگے اور سب سے آخری میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت کا ارادہ کیا۔
لیکن اسلام کے دشمن نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان ہم سے بچ کے چلا جائے۔ کیونکہ وہ اسلام کا خاتمہ چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنے کے لیے ان کا پیچھا کیا اور پکڑنے والے پر انعام رکھا۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوفہ میں موجود تھے۔ تب وہ پیچھا کرتے کرتے غار ثور کے پاس پہنچ گئے اور قریب تھا کہ وہ پکڑ لیتے۔
لیکن کچھ قرشمے اللہ کی طرف سے ظاہر ہوئے۔ جسے دشمنوں کو واپس جانا پڑا اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ تک نہیں پائے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے داخل ہونے سے پہلے غفہ کو صاف کیا۔ بہت سارے سانپ کے گڈے غفہ میں مجود تھے۔ جنہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کپڑوں کے ٹکڑوں سے بند کر دیا تھا۔
صرف ایک سانپ کا گڈا غلطی سے کھلا رہ گیا تھا۔ اندر جانے کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنے تھک گئے تھے کہ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی گود میں سر رکھ کر آرام کرنے لگے۔ سانپ کے اس بچے ہوئے گڈے پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا پیر رکھ دیا۔ باقی اس میں سے کوئی چیز نہ نکلے۔
اتنے میں ایک سانپ نے اس گڈے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ڈس لیا۔ لیکن انہوں نے اپنا پیر اس سے نہیں ہٹایا۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام میں کوئی خلل ہو۔ لیکن سانپ کے کاٹنے سے ہونے والا درد اتنا تیز تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے اور ایک آنسو جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گال پر گرا۔
تو ان کی آنکھ کھل گئی۔ پتہ چلا سانپ نے کاٹا ہے۔ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لعاب کو اس جگہ پر لگا دیا۔ جہاں سانپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کاٹا تھا۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آرام محسوس ہونے لگا۔ اور درد دور ہو گیا۔ دونوں حضرات تین دن تین رات تک یہی رہے۔
قریش کے لوگ گفہ کے قریب پہنچ کر اس میں گھسنے ہی والے تھے۔ لیکن ایک چمتکار ہوا مکڑی نے گفا کے اندر جانے کی جگہ پر جالا لگا دیا اور کبوتروں نے انڈے دے دیے۔ اس طرح اس جگہ کو ایسا بنا دیا مانو سالوں سے یہاں کسی نے جھانکا ہی نہ ہو۔ وہ لوگ ایسے آدمی کو ساتھ لے کر آئے تھے۔ جو پیروں کے نشان دیکھ کر بتا سکتا تھا کہ یہاں سے کوئی گیا ہے یا نہیں۔
اسی لیے وہ آدمی کہتا رہا کہ اندر کوئی گیا ہے لیکن ان کافروں نے نہیں مانا اور کہا کہ گفا کی حالت دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ یہاں سالوں سے کوئی آیا ہو آخر کار وہ ناکام ہو کر وہاں سے چلے گئے۔ اس طرح اللہ تعالی نے اپنے نبی کی مدد کی اور وہ وہاں سے نکل کر مدینے کی طرف روانہ ہو گئے۔