
ایک صحابی کی دجال سے ملاقات کا واقعہ
دوستوں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ایک صحابی جن کا نام حضرت تمیم داری تھا.انہوں نے دجال سے ملاقات بھی کی. اور واپسی پر اپنی ملاقات کا یہ تمام احوال حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تصدیق فرمائی حضرت تمیم داری ایک عیسائی تھے جو بعد میں مسلمان ہوئے تھے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ممبر پر جلوہ افروز ہوئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا ہر شخص اسی جگہ بیٹھا رہے جہاں نماز پڑھی ہے اس کے بعد آپ نے کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں یہاں کس لیے جمع کیا ہے لوگوں نے عرض کیا اللہ تعالی اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آج میں نے تمہیں ڈرانے یا خوشخبری سنانے کے لیے جمع نہیں کیا بلکہ اس لیے جمع کیا ہے کہ حضرت تمیم داری جو نصرانی تھے وہ میرے پاس آئے بیعت کی اور مسلمان ہوئے پھر اس کے بعد ایک ایسی بات بتائی جو میں نے تمہیں دجال کے متعلق بتائی ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ میں بنی جزام کے تیس افراد کے ساتھ جہاز کے اندر سفر کر رہا تھا کہ اچانک ہم لوگ بھٹک گئے سمندر کی لہریں مہینہ بھر ان سے کھیلتی رہی ہم پورا مہینہ سمندر کے اندر بے سروسمانی کی حالت میں گھومتے رہے پھر ایک دن سورج غروب ہونے کے وقت ایک جزیرے کے پاس جا کر لگے اور چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرے میں داخل ہوئے اچانک مجھے وہاں پر ایک موٹی دم اور گھنے بالوں والے ایک جانور ملا میرے لوگوں نے پوچھا کہ تو کون ہے اس جانور نے جواب دیا کہ میں جساساں ہوں تم ایک آدمی کے ساتھ اس بت خانے میں جاؤ کیونکہ وہاں موجود ایک شخص بڑی بے چینی سے تمہارا انتظار کر رہا ہے جب اس نے ہمارے سامنے اس کا نام لیا تو ہم اس جانور سے ڈر گئے کہ کہیں یہ شیطان نہ ہو اسی لیے ہم جلدی جلدی اس بت خانے میں پہنچ گئے اور وہاں ہم نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا آدمی ہے ہم نے اس سے بڑی مخلوق اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی وہ سختی سے زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن سے بندھے ہوئے تھے اور اس نے ہم سے بیسان کی کھجوروں زگر کے چشمے اور بنی امی کے متعلق ہم سے پوچھا اور آخر میں بتایا کہ میں دجال ہوں اور عنقریب مجھے نکلنے کی اجازت مل جائے گی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں نہ کہا کرتا تھا کہ دجال نہ شام میں ہے نہ یمن کے سمندر میں بلکہ وہ مشرق میں ہے اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی جانب اشارہ فرمایا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دجال عرب کے مشرق کے اندر سمندر کی طرف موجود ہے اور وہاں وہ قید میں ہے دجال نے حضرت تمیم داری سے سوال کیا کہ تم کون لوگ ہو؟ تمیم داری نے جواب دیا کہ ہم عرب کے لوگ ہیں اور اپنی یہاں تک پہنچنے کی تمام کہانی دہرا دی۔ اس کے بعد دجال نے پوچھا کہ کیا بیسان کی کھجوروں کے درختوں پر پھل آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں دجال نے کہا کہ زمانہ قریب ہے جب ان درختوں پر پھل نہیں آئیں گے۔ پھر اس کے بعد پوچھا کہ کیا بحر تبریہ میں پانی آتا ہے یا نہیں۔ حضرت تمیم داری نے جواب دیا کہ ہاں آتا ہے پھر اس کے بعد دجال نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق پوچھا تو حضرت تمیم داری نے ان کے متعلق بتایا کہ وہ عربوں کے عزیز تھے۔ اور عربوں پر آپ نے غلبہ حاصل کر لیا ہے دجال نے کہا کہ ان کے حق میں اطاعت کرنا ہی بہتر تھا پھر اس نے کہا کہ اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں میں مسیح ہوں عنقریب مجھ کو نکلنے کا حکم دیا جائے گا میں باہر نکلوں گا اور زمین پر سفر کروں گا یہاں تک کہ کوئی ایسی آبادی نہیں چھوڑوں گا جہاں میں داخل نہ ہوں سوائے مکہ اور مدینہ کو چھوڑ کر جب میں ان میں داخل ہونے کی کوشش کروں گا تو وہاں فرشتے تلوار لیے ہوئے مجھے روکیں گے لیکن اس کے علاوہ میں پوری دنیا میں داخل ہو سکوں گا