اللہ پاک نے سانپ کو کب اور کیوں پیدا فرمایا؟

اللہ پاک نے سانپ کو کب اور کیوں پیدا فرمایا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو اکثر سننے کو ملتا ہے اس جواب آپ کو آج کی اس ویڈیو میں تفصیل سے بتایا جاۓ گا اور اس کے ساتھ آپ کو ہم یہ بھی بتائیں کہ سانپ کو مارنا کیسا ہے؟ اور اس بارے میں حضور کا فرمان بھی آپ سب سے شیئر کریں گے اور آپ کو اسی حوالے سے حضرت علی کے چند فرمودات بھی آپ سے شیئر کریں گے

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث مبارکہ تو آپ سبھی لوگوں نے سنی ہو گی کہ اگر میں علم کا شہر ہوں تو علی اس کا دروازہ ہے دوستو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کو حضرت علی نے پوری طرح سے پورا کیا ہر چیز کا علم ان کے پاس موجود تھا جو انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کیا اور وہ علم آج تک ہم تک پہنچتا ہے جو مختلف معاملات میں ہماری رہنمائی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے

ایک دفعہ ایک مشرک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پیش ہو کر ان سے کہنے لگا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ علم کا دروازہ ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہر چیز کو کسی نہ کسی مقصد کے لیے پیدا کیا ہے لیکن مجھے بتائیں کہ یہ کاٹنے اور مارنے والا سانپ جو ہر جگہ پھرتا رہتا ہے اسسے بھلا کسی کو کیا فائدہ ہے اللہ تعالی نے اس کو کیوں پیدا کیا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب اس شخص کا یہ سوال سنا تو اس کی طرف دیکھا اور اس شخص سے فرمایا اللہ اپنی بنائی ہوئی ہر چیز سے پیار کرتا ہے افسوس تو یہ ہے کہ جتنا اللہ کریم ہے انسان اتنا ہی اس کے کرم سے نا واقف ہے اے شخص اللہ تعالی نے سانپ کے منہ میں زہر اس لیے رکھا تاکہ سانپ زور زور سے اپنے منہ سے ہوا نکالے اور اس کی ہوا کی بدولت فضا میں جتنی ایسی بیماریاں جنم لیتی ہیں جو انسان کے لیے نقصان کا سبب بنتی ہیں وہ تمام بیماریاں ختم ہو جائیں اور فرمایا اے شخص یاد رکھنا انسان کے وجود میں کچھ ایسے بیماریاں جنم لیتی ہیں جن کا علاج اللہ تعالی نے سانپ کے ذہر میں رکھا ہے افسوس تو یہ ہے کہ انسان صرف وہی جانتا ہے جو وہ جاننا چاہتا ہے

دوستو کیا آپ جانتے ہیں کہ سانپ پہلے جنتی جانور تھا جس کے منہ سے زہر کی جگہ خوشبو نکتی تھی پھر آخر اس سے ایسی کونسی سزا سرزد ہوئی جس کی وجہ سے اسے جنت سے نکال دیا بتاتے چلیں کہ سانپ اور مور پہلے جنت میں ہی رہتے تھے لیکن پھر انہوں نے وہاں ایک ایسی غلطی کر دی جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے انہیں جنت سے باہر نکال دیا تھا۔ دوستو جب شیطان مردود نے انسان کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا تو اللہ تعالی نے اسے جنت سے بے دخل کر دیا۔ چونکہ جنت بے حد خوبصورت جگہ ہے وہاں کھانے پینے گھومنے کے لیے بہت سی جگہیں موجود ہیں۔ لیکن جب حضرت آدم علیہ السلام وہاں پر خود کو اکیلا محسوس کرنے لگے اور اداس رہنے لگے۔ تو اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی اداسی دور کرنے کے لیے بی بی ہوا کو پیدا کیا اس طرح حضرت آدم علیہ السلام کو بی بی ہوا کا ساتھ مل گیا اور وہ دونوں جنت میں خوشی خوشی رہنے لگے

اللہ تعالی نے ان سے فرمایا تم دونوں جنت میں جہاں مرضی جاؤ جو مرضی کھاؤ جو مرضی کرو لیکن خبردار اس درخت کے پاس نہ جانا اور نہ ہی اس درخت پر پھل کھانا ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے جنت میں سانپ اور مور بھی رہا کرتے تھے وہ جنت سے باہر بھی چلے جایا کرتے تھے اس وقت سانپ کے پاؤں بھی تھے اور اس کے منہ سے خوشبو بھی آیا کرتی تھی مور کے پاؤں اس وقت بہت خوبصورت تھے جو آج ہمیں خوبصورت دکھائی نہیں دیتے ایک دن جب یہ دونوں جنت سے باہر آئے تو شیطان نے ان دونوں سے کہا کہ مجھے اپنے ساتھ جنت میں لے چلو جس پر سانپ اور مور نے کہا کہ ہمیں اللہ تعالی کا خوف ہے ہم تمہیں جنت میں نہیں لے جا سکتے کوئی دیکھ لے گا جس پر شیطان نے انہیں بھلایا پھسلایا اور کہا کہ میں بھی تو تمہارے ساتھ جنت میں ہوا کرتا تھا تمہارا دوست ہوا کرتا تھا مجھے اپنے ساتھ لے چلو جس پر سانپ نے شیطان کو مشورہ دیا کہ تم سانپ بن جاؤ مور تمہیں کھا جائے گا اور تمہیں جنت میں جا کر اگل دے گا شیطان کو یہ مشورہ پسند آیا اور وہ فورا سانپ بن گیا اور مور نے اسے کھا لیا اور جنت میں لے جا کر اسے اگل دیا اس طرح شیطان جنت میں داخل ہو گیا

شیطان نے جنت میں حضرت آدم علیہ سلام اور بی بی حوا سے ملاقات کی اور انہیں کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں تم نے جنت میں ابھی تک اس پھل کو کیوں نہیں کھایا جس پر ان دونوں نے شیطان کو جواب دیا کہ اللہ تعالی نے ہمیں اس درخت سے دور رہنے کا کہا ہے اور اس درخت کا پھل کھانے سے بھی منع کیا ہے اس لیے ہم نے وہ پھل ابھی تک نہیں کھایا اور نہ ہی کھائیں گے جب حضرت آدم علیہ السلام سو گئے تو شیطان بی بی حوا کے پاس آیا اور ان کو بہکانے لگا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالی نے تمہیں وہ پھل کھانے سے اس منع کیا ہے کہ کہیں وہ پھل کھانے کے بعد تم فرشتہ نہ بن جاؤ اور ہمیشہ کے لیے جنت میں نہ رہنے لگو۔ بی بی ہوا شیطان کی باتوں میں پہلے تو نہیں آئیں لیکن جب شیطان انہیں بار بار کہتا رہا تو بی بی حوا شیطان کی باتوں میں آگئی اور اس درخت کا پھل انہوں نے کھا لیا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام سو کر اٹھے تو انہوں نے اسرار کر کے انہیں بھی وہ پھل کھلا دیا۔ اس طرح دونوں نے جنت کا پھل کھا لیا جس کی وجہ سے ان کا جنت کا لباس اتر گیا۔

اللہ تعالی نے ان دونوں سے کہا کہ میں نے اسی وجہ سے تم دونوں کو یہ پھل کھانے اور اس درخت کے پاس جانے سے منع کیا تھا تم دونوں نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا ہے اس پر حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور انہوں نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہو کر معافی مانگی اللہ تعالی نے انہیں معاف کر دیا اور حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کو جنت سے نکال کر زمین پر بھیجا اور کہا کہ زمین پر ایک خاص وقت تک تمہارا ٹھکانہ ہے اور تم زمین پر ہی رہو گے۔ اللہ تعالی نے مور کو جنت میں شیطان کو لے جانے کی وجہ سے اس کی خوبصورتی چھین لی اور جس پاؤں سے وہ شیطان کو جنت میں لے کر گیا تھا اس کو بدصورت بنا دیا اور سانپ جس نے اپنے منہ سے شیطان کو یہ مشورہ دیا اس کے منہ کی خوشبو چھین کر اس کے منہ میں زہر بھر دیا اور سانپ اور مور کو ہمیشہ کے لیے جنت سے بے دخل کر دیا

دوستو آج کی اس ویڈیو کے تسلسل سے ایک اور واقعہ آپ سے شیئر کرتے چلیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی عبادات کو وقت پر ادا کیا کرتے تھے۔ تو مشرکین نے سوچا کیوں نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عبادت کو تاخیر کا شکار کیا جائے انہوں نے سوچا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب مغرب کی نماز ادا کرنے لگیں گے تو ہم ان سے ایک ایسا سوال کریں گے جس کا جواب دینے میں انہیں کچھ وقت لگے گا اور اس وقت کا ہم فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی نماز کو تاخیر کا شکار کر دیں گے اس کے لیے انہوں نے مغرب کی نماز کے وقت کا انتخاب کیا کیونکہ مغرب کی نماز کی ادائیگی کا جو وقت ہے وہ بہت کم ہوتا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ جب مغرب کی نماز ادا کرنے لگے تو وہ ان کے پاس آئے اور کہا کہ ہمیں آپ سے ایک سوال کرنا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ہاں پوچھو کیا سوال تم لوگ کرنا چاہتے ہو جس پر انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمیں بتائیں وہ ایسے کون سے جانور ہیں جو بچے دیتے ہیں اور وہ ایسے کون سے جانور ہیں جو انڈے دیتے ہیں مشرکین نے جب یہ سوال سوچا یا ان سے پوچھا تو ان کے دماغ میں یہ بات تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کا جواب دینے میں کافی تاخیر لگے گی اور اس کی وجہ سے ان کی نماز تاخیر کا شکار ہو جائے گی

لیکن ان کو نہیں معلوم تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس علم کا کتنا بڑا خزانہ موجود ہے اور وہ اس میں ناکام ہوں گے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مشرکین کا یہ سوال سنا انہیں کہا کہ وہ جانور جن کے کان باہر ہوتے ہیں وہ بچے لیتے ہیں اور جن کے کان اندر ہوتے ہیں وہ انڈے دیتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دے کر فوری طور پر اپنی نماز شروع کر دی مشرکین نے جب یہ چیز سنی اور دیکھا تو وہ حیران رہ گئے

دوستو اب آپ کو بتاتے ہیں کہ سانپ کو مارنا کیسا ہے؟ اور حضور اقدس نے ان کو مارنے کے حوالے سے کیا فرمایا یہ بھی آپ کو بتاتے ہیں دوستو چونکہ سانپ ایک موذی جانور ہے ، لہٰذاسانپ کومارنا، جائز بلکہ مستحب ہے اور حدیث پاک میں سانپ کو مارنے کی ترغیب موجود ہے۔ البتہ سفید رنگ کا سانپ جو سیدھا چلتا ہے اور چلنے میں بل نہیں کھاتا اس سانپ کو بغیر تنبیہ کے مارنا منع ہے۔ اسی طرح مدینہ منورہ کے گھروں میں رہنے والے سانپوں کو مارنا بغیر تنبیہ کے منع کیا گیا ہے، سوائے دو قسم کے سانپوں کے جنہیں ذوالطیفتین اورابتر کہا جاتا ہے۔

سانپ کو مارنے کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمام سانپوں کوقتل کرو ، جو اُن کے بدلہ لینے کے ڈرسےچھوڑ دے وہ مجھ سے نہیں۔(ابو داؤد، جلد2، صفحہ 372، مطبوعہ لاہور)