
آپﷺ اور تین صحابہ کرامؓ کا واقعہ
دوستوں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ و اجمعین کے درمیان تشریف فرما تھے ایک نوجوان شکایت لے کر حاضر ہوا کہنے لگا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی کھجوروں کے باغ کے اردگرد دیوار تعمیر کر رہا تھا۔ میرے ہمسائے کا کھجور کا ایک درخت دیوار کے درمیان میں آگیا۔ میں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنے کھجور کا درخت میرے لیے چھوڑ دے۔ تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی بنوا سکوں۔ اس نے دینے سے انکار کیا تو میں نے اس کھجور کے درخت کو خریدنے کی پیش کش کر ڈالی۔ میرے ہمسائے نے مجھے بیچنے سے بھی انکار کر دیا ہے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نوجوان کے ہمسائے کو بلایا ہمسایہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نوجوان کی شکایت سنائی جسے اس نے تسلیم کیا کہ واقعتا ایسا ہی ہوا ہے آپ نے فرمایا تم اپنے کھجور کا درخت اس نوجوان کے لیے چھوڑ دو یا اس درخت کو فروخت کر دو اور قیمت لے لو اس آدمی نے انکار کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بات کو ایک مرتبہ پھر دہرایا کھجور کا درخت اس نوجوان کو فروخت کر کے پیسے بھی لے لو اور تمہیں جنت میں ایک عظیم الشان کھجور کا درخت ملے گا جس کے سائے میں گھوڑ سوار سو سال تک چلتا رہے گا دنیا کے ایک درخت کے بدلے میں جنت میں ایک درخت کی پیشکش ایسی عظیم تھی جس کو سن کر مجلس میں موجود سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ و اجمعین دنگ رہ گئے سب یہی سوچ رہے تھے ایسا آدمی جو جنت میں ایسے عظیم الشان درخت کا مالک ہو کیسے جنت سے محروم ہو کر دوزخ میں جائے گا مگر اس آدمی نے اپنا کھجور کا درخت بیچنے سے صاف انکار کر دیا۔ مجلس میں موجود ایک صحابی ابو دادا رضی اللہ تعالی عنہ آگے بڑھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر میں کسی طرح وہ درخت خرید کر اس نوجوان کو دے دوں تو کیا جنت کا وہ درخت مجھ کو ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا ہاں وہ درخت ضرور ملے گا۔ ابو الدحدا رضی اللہ تعالی عنہ اس آدمی کی طرف پلٹے اور اس سے پوچھو میرے کھجوروں کے باغ کو جانتے ہو۔ اس آدمی نے فورا کہا جی کیوں نہیں مدینے کا کونسا ایسا آدمی ہے جو ابو الدحدہ کے چھ سو کھجوروں کے باغ کو نہ جانتا ہو۔ ایسا باغ جس کے اندر ہی ایک محل تعمیر کیا گیا ہے۔ باغ میں میٹھے پانی کا اور باغ کے ارد گرد تعمیر خوبصورت اور نمایاں دیوار دور ہی سے نظر آتی ہے مدینے کے سارے تاجر تیرے باغ کے اعلی اقسام کے کھجوروں کو کھانے اور خریدنے کے انتظار میں رہتے ہیں ابو الدحدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس آدمی کو کہا تو پھر کیا تم اپنے اس کھجور کے ایک درخت کو میرے سارے باغ محل کنویں اور اس خوبصورت دیوار کے بدلے میں فروخت کرتے ہو آدمی نے غیر یقینی سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا کہ کیا عقل مانتی ہے کہ ایک کھجور کے بدلے میں اسے ابو دادا کے چھ سو کھجوروں کا باغ مل جائے معاملہ ہر لحاظ سے فائدہ مند نظر آ رہا تھا حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مجلس میں موجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین نے گواہی دی اور معاملہ طے پا گیا ابو الدحدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے خوشی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت میں میرا ایک کھجور کا درخت پکا ہو گیا نا آپ نے فرمایا نہیں ابو الدحدہ رضی اللہ تعالی عنہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواب سے حیرت زدہ ہو گئے آپ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یوں ہے اے ابو الدحدا اللہ رب العزت نے تو جنت میں ایک درخت محض ایک درخت کے بدلے میں دینا تھا تم نے اپنا پورا باغ ہی دے دیا اللہ رب العزت جو کرم میں بے مثال ہیں۔ انہوں نے تجھے جنت میں کھجوروں کے اتنے باغات عطا کیے ہیں۔ کہ کثرت کی بنا پر جن کی گنتی نہیں کی جا سکتی۔ اے ابو الدحدا میں تجھے پھل سے لدے ہوئے ان درختوں کی کس قدر تعریف بیان کروں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اس بات کو اس قدر دہراتے رہے کہ محفل میں موجود ہر شخص یہ حسرت کرنے لگا کہ اے کاش وہ ابو الدحدہ ہوتا ابو الدحدہ رضی اللہ تعالی عنہ جب اپنے گھر کو لوٹے تو خوشی کو چھپا نہ پا رہے تھے گھر کے باہر سے ہی اپنی بیوی کو آواز دی اور کہا کہ میں نے چار دیواری سمیت یہ باغ محل اور کنواں بیچ دیا ہے بیوی اپنے خاوند کی کاروباری خوبیوں اور صلاحیتوں کو اچھی طرح جانتی تھی اس نے اپنے خاوند سے پوچھا ابو الدادہ کتنے میں بیچا ہے یہ سب کچھ ابو الدادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بیوی سے کہا میں نے یہاں کا ایک درخت جنت میں لگے ایسے ایک درخت کے بدلے میں بیچا ہے جس کے سائے سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔ ابو الدحدہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی نے خوشی سے چلاتے ہوئے کہا۔ ابو الدحدہ تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔